Alhikmah International

تصور بیان

                                

 

مقدمہ:

اظہار رائے کی آزادی کو دنیا بھر میں بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کو ایک ترتی یافتہ معاشرہ کی علامت سمجھا جاتا ہے، اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کو اس بات کا حق ہے کہ وہ کسی عموی یاخصومی معاملہ میں اپنی رائے دے ، اپنے افکار، احساسات اور ارادوں کا اظہار کرے، اقوام متحدہ کے منشور میں دفعہ ۱۹ کے تحت اظہار رائے کی آزادی کی تعریف اسطرح کی گئی ہے:

“Everyone has the right to freedom of opinion and expresssion; this right includes freedom to hold opinions without interference and to seek, receive and impart information and ideas through any media and regardless of frontiers”.

اسلام اس بات کا علم بردار ہے کہ لوگوں کو اپنے نقط نظر کے اظہار کی آزادی حاصل ہو اور ان کے زبان پر کسی طرح کی بندش نہ ہو؛ کیونکہ آ زادی کے بغیرانسانی زندگی اپنی طاقت کھو دیتی ہے، اسلام نے ان کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ اپنے اس وقت کا استعمال کرے اور اس سے دستبردار نہ ہو؛ کیونکہ اس کے بغیر امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور شہادت کے فریضہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہو سکے گی۔

اسلام نے اظہار رائے کی آزادی کے حق کو ہر انسان کے لیے تسلیم کیا ہے، چاہے وہ حاکم ہو یامحکوم ، سلطان ہو یا رعایا، اسلام کی نظر میں یہ صرف قانونی یا دستوری حق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک فطری  حق ہے، جس سے ہر انسان استفادہ کرسکتا ہے، اس لئے شریعت نے حاکم کے لیے فرض قرار دیا کہ وہ شورائی نظام قائم کرے اور شہریوں کے مشورے سے امور طے کرے، اس کے لیے ضروری ہوگا کہ عدالتی نظام کو آز اد ر کھے اور کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے امت کی پامالی ہوتی ہو،شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے اس کا استعمال کریں۔

 

اظہار رائے کی آزادی اور قرآن:

قرآن میں اظہار رائے کی آزادی کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور تعلیم دی گئی ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ جو دیکھے اس کو پوری امانت کے ساتھ بیان کرے اور حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرے، قرآن کہتا ہے کہ جو کوئی سچائی کو اپنے ذاتی مفادات اور تعلقات کی وجہ سے چھپاتا ہے وه گناہ گا ر ہے:

{وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ } [البقرة: 283] [1]

ترجمہ:اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ، جوشهادت چھپاتا ہے اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تعالی تمہارے اعمال سے بے خبرنہیں”۔

{وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ } [البقرة: 42]

اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، جب کہ تم جانتے ہو۔

قرآن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تصور پیش کرتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جو چیز از روئے شریعت مطلوب ہے وہ اس کو فروغ دے اور جن چیزوں کی شریعت میں ممانعت ہے، وہ اس سے لوگوں کو باز رہنے کی تاکید کرے۔ ظاہر ہے کہ جب تک اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ ہوگی یہ فریضہ ادا نہیں ہوسکتا ہے، پھر یہ بات ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرانسانی زندگی کے ہر شعبہ میں مطلوب ہے، لہذا سیاست ہو یا معیشت، تعلیم و تربیت ہو یا ادب وسیاست، ہر چیز پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:

{وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ }[2]

ترجمہ:اور مومن مرد اور مومن عورتیں، ان کے بعض بعض کے دوست ہیں، وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں “۔

اظہار رائے کی آزادی کا  حق  انصاف کے قیام کے سلسلہ میں پہلا قدم ہے، سچی گواہی دینا اور بات بولنا انصاف کی راہ ہموار کرتا ہے، اس کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:

لايجرمنكم شنآن قوم على أن لا تعدلوا “[3]

ترجمہ:”کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جاؤ”

قرآن میں حق کو چھپانا اس کو دبا ناسخت گناہ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ الله تعالی کا ارشادہے:و من يكتمها فانه آثم قلبه۔

قرآن کہتا ہے کہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ  حق اور صبر کی تلقین کرے،حق اور صبر کی تلقین کے لئے اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر [4]

ترجمہ:اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہو”

دین میں اختلاف رائے کو گوارا کیا گیا ہے، تا کہ اظہار رائے کی آزادی متاثر نہ ہو،بلکہ اگر اختلاف رائے اخلاص کی بنیاد پر ہو تو اس کو ایک قابل اجرعمل قرار دیا گیا، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الله تعالی فرماتے ہیں:

ولو شاء ربک لجعل الناس أمة واحدة ولايزالون مختلفين ‪[5]

ترجمہ:بیشک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں پر ہی چلتے رہیں گے”

اور پھر مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر ان کے درمیان کسی امر میں اختلاف رائے ہوجائے تو اس بارے میں اللہ، اس کے رسول اور اولی الامر کی طرف رجوع ہوں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:

فإن تنازعتم في شئ فردوه إلى الله والرسول، إن کنتم تؤمنون بالله واليوم الآخر[6]

ترجمہ:پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی الله اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو”

اس سے معلوم ہوا کہ فکر ونظر کا اختلاف اور نئے رجحانات و افکار کے اظہار کی قرآن حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لا إكراه في الدين[7]

ترجمہ:دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے”

یعنی دین اس چیز کا نام نہیں ہے کہ لوگوں کو کسی عقیده یا تصور کو ماننے پر مجبور کیا جائے، بلکہ دین کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اس چیز میں یقین رکھیں جن کو ان کا ضمیروایمان تسلیم کرتا ہو۔

رسول اللہ﷞ کو خطاب کرتے ہوئے ارشادہوا:

وما جعلناك عليهم حفيظا وما أنت عليهم بوكيل[8]

ترجمہ:تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقر نہیں کیا ہے اور تم ان پر سوال دار ہو “

اس آیت سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ رسول اللہ کا یہ فریضہ نہیں تھا کہ وہ لوگوں کو اسلام لانے پر مجبور کریں؛ کیونکہ ہر انسان فطری طور پر آزاد پیدا کیا گیا ہے، لہذا کوئی ایسا اقدام نہیں کر نا چا ہے جس سے اس کی فکری آزادی پامال ہوتی ہو۔

اللہ کے دربار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جملہ ”أرني كيف تحی الموتی (اے اللہ میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟ ) سوء ادب نہیں سمجھا گیا کیونکہ ان کا منشا اللہ کی اس قدرت کی تکذیب نہیں تھی، بلکہ صرف اطمینان قلب تھا، یہ واقعہ اللہ کے سامنے اظہار رائے کی بہترین مثال ہے۔

اظہار رائے کی آزادی اور حدیث :

سرمایہ  حدیث میں بہت ساری ایسی روایات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول﷞نے اظہار رائے کی آزادی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ صحابہ کو اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے حق کا تحفظ کریں، چنانچہ آپ نے فرمایا:

لا يمنعن رجلا هيبة الناس أن يقول بحق إذا علمه [9]

ترجمہ: اگر کوئی آدمی کسی بات کو سمجھتا ہو تو لوگوں کے ڈر سے اس کے کہنے سے ہرگز نہیں رکھنا چاہے”

دوسرے موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

أفضَلُ الجهادِ كلمةُ عدلٍ عندَ سلطانٍ جائرٍ [10]

ترجمہ:سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ آدی ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف والی بات کہے

ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے آپ کوحقیر نہ سمجھے ،صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللهﷺکوئی شخص اپنے آپ کو کیسے حقیر سمجھے گا؟ آپ نے ارشادفرمایا: وشخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کو بات کہنی چا ہے لیکن وہ نہیں کہتا ہے، ایسے شخص سے اللہ تعالی قیامت کے دن پوچھیں گے کہ تم نے فلاں معاملہ میں بات کیوں نہیں کہی ؟ و و جواب دے گا: لوگوں کے ڈرسے، اللہ تعالی فرمائے گا کہ تم کو مجھ سے زیادہ ڈرنا چاہے (ابن ماجہ، کتاب الفتن باب الامر بالمعروف ونہی عن المنکر)۔

رسول اللہ ﷺصحابہ﷢ سے اس بات پر بیعت کرتے تھے کہ وہ حق بات کا برملا اظہار کر یں، چنانچہ سیدنا عبادہ بن صامت﷜ فرماتے ہیں:

بَايَعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى أَنْ نَقُولَ بِالْحَقِّ أَيْنَمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ [11]

ترجمہ:رسول الله ﷺ نے ہم لوگوں سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، حق بات کہیں اور اللہ کے راستے میں ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈر ہیں”

رسول اللہ ﷺنے بڑی تاکید کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ آ پ ﷺکا ارشاد ہے:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدِ الظَّالم[12]

ترجمہ:اللہ کی قسم تم لوگوں کو اچھائیوں کی ضرور دعوت دو اور ان کو برائیوں سے ضرور روکو اور ظالم کا ہاتھ ضرور پکڑو”

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا اظہار کر نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ اس کی حیثیت شرعی علم کی ہے، ایک حدیث میں یہاں تک فرمایا گیا کہ اگرتم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دو گے تو اللہ تم کو عذاب میں مبتلا کر دے گا اور اگر تم دعامانگو گے تو تمہاری دعا قبول نہ کی جائے گی ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ اليَمَانِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ المُنْكَرِ أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلَا يُسْتَجَابُ لَكُمْ [13]

عہد رسالت میں اظہار رائے کی آزادی:

اسلام کا یہ قانون ہے کہ عام اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں کرے، بلکہ وہ ارباب حل وعقد سے مشاورت کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے، الله تعالی فرماتے ہیں:

 وشاورهم في الأمر[14]

 اور دوسری جگہ ارشاد ہوا:وأمرهم شوری بینهم[15]

رسول اللہ نے اس آیت کی بہترین تطبیق فرمائی، چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر اسلامی فوج کے لیے جو جگہ رسول﷞نے پسند فرمائی تھی جنگی منصوبہ بندی کے لحاظ سے وہ جگہ مناسب نہیں تھی، صحابی رسول حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ نے اس جگہ کا جو انتخاب فرمایا ہے وہ وحی کی بنیاد پر ہے یا پھر یہ آپ کی شخصی رائے ہے؟ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری شخصی رائے ہے، حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے رسول الله ﷺ کو جگہ کی تبدیلی کا مشورہ دیا، تا کہ اسلامی فوج کو آسانی سے پانی حاصل ہو سکے اور غیر اسلامی فوج کی رسد کو روکا جا سکے ، رسول الله ﷺ نے حضرت خباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے پرعمل فرمایا ۔[16]

اس سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی حاصل تھی اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے نہ صرف مشاورت کرتے تھے بلکہ ان کے مشوروں پر حسب ضرورت عمل بھی فرماتے تھے۔

غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا کہ ان کوقتل  کردیا جائے یا پرند ہی دے کر چھوڑ دیا جائے ، حضرت ابو بکر﷜کی  رائے تھی کہ قیدیوں کو فدیہ دے کر چھوڑ دیا جائے، تاکہ فدیہ کے ذریعہ کچھ رقم اسلامی ریاست کو حاصل ہوجائے ، حضرت عمر﷜ کا خیال تھا کہ قیدیوں کوقتل کردیا جائے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی رائے کوترجیح دی۔[17]

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ دربار رسالت میں اختلاف رائے کی پوری گنجائش تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اظہار رائے کی حمایت کرتے تھے۔

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر شہر مد ینہ سے باہر نکل کر کے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کثرت رائے کی بنیاد پر کیا تھا، اور شخصی طور پر آپ کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر ہی  کافروں سے مقابلہ کیا جائے۔

اس عمل سے معلوم ہوا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی رائے پر چلنے کے بجائے اجتمائی امور میں کثرت رائے کوترجیح دیتے تھے۔

غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھودنے کا فیصلہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا شخصی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشاورت کی اور حضرت سلمان فاری کے مشورہ کے مشورہ کے مطابق خندق کھودنے کا فیصلہ کیا گیا، تا کہ کافروں کی متحدہ فوج سے مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جا سکے (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزة الخند ق وہی احزاب)۔

اس واقعے  سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ دربار رسالت ﷺمیں ہر صحابی اپنی رائے پیش کرنے میں آزاد تھے، اس میں بڑے اور چھوٹے صحابی کا فرق نہیں تھا۔

رسول اللہ نے جنگ خندق کے موقع پر قبیلہ غطفان سے سمجھوتا کر نے کی کوشش کی اور اس سمجھوتے کے عوض میں مدینہ کے کھجور کی کل پیداوار کا ایک نے ادا کرنے کا ارادہ فرمایا آپ ﷺنے اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے بجائے حضرت سعد بن معاذ،حضرت سعد بن عبادہ ، حضرت سعد بن ربیع، حضرت سعد بن خیثمہ اور حضرت سعد بن مسعود رضی اللہ عنہم کو مشورہ کے لیے بلایا اور ان کے سامنے اپنی رائے بھی رکھی  ، ان لوگوں نے آپ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ کی اس رائے کی بنیاد وحی ہے یا پھر آپ شخصی طور پر اس کو مناسب سمجھ رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے، ان لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! ہم ان کو مد ینہ کی ایک کھجور بھی نہیں دیں گے (المعجم الکبیر، مجمع الزوائد)۔

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں جمہوریت قائم تھی اور صحابہ رسول اللہﷺکے سامنے ہر معاملہ میں پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے بیان کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ اپنی رائے صحابہ پر مسلط نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو رفیقانہ ماحول فراہم کرتے تھے تا کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔

واقعہ افک کے موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا، کچھ صحابہ نے رسول الله ع کومشورہ دیا کہ وہ حضرت عائشہ کو طلاق دے دیں، رسول اللہ ﷺ نے اس مشورہ پر کوئی ناگواری ظاہر نہیں کی، آپ نے اس معاملہ میں توقف کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے حضرت عائشہ کی براء ت کا اعلان کردیا [18]

رسول اللہ ﷺاپنی ازواج کو کسی بھی معاملہ میں رائے کے اظہار سے نہیں روکتے تھے، اور ازواج مطہرات پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺکے سامنے اپنی رائے کا برملا اظہار فرماتی تھیں، بلکہ بعض حالات میں وہ رسول اللہﷺسے بحث و مباحثہ کر لیتی تھیں، حضرت عمر کا بیان ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں عورتوں کو ان کے حقوق حاصل نہیں تھے اسلام نے ان کو حقوق عطا کیے، یہاں تک کہ عورتیں اپنے شوہروں سے حقوق کا مطالبہ کرنے لگیں، چنانچہ میری اہلیہ نے بھی مجھ سے کیسی معاملہ میں جرح کی ، میں نے اپنی اہلیہ کو جرح سے روکا ، یہ سن کر میری اہلیہ نے مجھ سے کہاکہ تم مجھ کو جواب دینے سے روکتے ہو اور تمہاری بیٹی رسول اللہ ﷞سے جرح کرتی ہے، میں حفصہ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ کیا تم رسول اللہ﷞کی باتوں کا جواب دیتی ہو؟ حفصہ نے جواب دیا کہ ہاں، ہم رسول اللہ﷞ کی بات کا جواب دیتے ہیں (صحیح مسلم کتاب الطلاق)۔

حضرت عمر  کر کے بیان سے معلوم ہوا کہ آپ نے اپنی ازواج کو اظہار رائے کی آزادی دے رکھی تھی، یہاں تک کہ وہ آپ سے جرح وقدح کرتی تھیں۔

حضرت بریرہ کا واقعہ اظہار رائے کی آزادی کی بہترین مثال ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت بریرہ اپنی غلامی کی حالت میں حضرت مغیث کے نکاح میں تھیں، ان کو ان کے مالک نے آزاد کر دیا ، شریعت کے اصول کے مطابق اگر کسی عورت کی شادی حالت غلامی میں ہوتی ہے تو آزادی ملنے کے بعد اس کو اختیار ہوگا کہ یا تو اپنے پہلے شوہر کے ساتھ رہے، یا پھر اپنا نکاح کرلے، اس قاعدہ کے مطابق حضرت بریرہ نے اپنا نکاح کرلیا، حضرت مغیث حضرت بریرہ سے بڑی محبت کرتے تھے، اس لئے وہ حضرت بریرہ کی علیحدگی سے بہت رنجیده ہو گئے ، رسول اللہ ﷺکو ان کی حالت پر رحم آیا ، انہوں نے حضرت بر یرہ  کو طلب کیا اور ان سے خواہش کی کہ وہ اپنے آپ کو حضرت مغیث  کے نکاح میں باقی رکھیں حضرت بریرہ نے رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ! یہ آپ کا مشورہ ہے یاحکم؟ رسول الله ﷺ نے کہا: یہ میرا مشورہ ہے، حضرت بریرہ نے کہا کہ اگر یہ آپ کا مشورہ ہے تو پھر میں اس پرعمل کرنے سے قاصر ہوں (بخاری ، کتاب الطلاق، باب شفاعت النبی صلی الله علیہ وسلم فی زوج بر یرة)۔

اس واقعے پتا چلا کے عہد نبوت میں خواتین کو مرد کے بربر اظہار رائے کی آزادی حاصل تھی اور وہ اپنے اس حق سے حسب ضرورت بھر پور استفادہ کرتی تھیں۔

عہد صحابہ میں اظہار رائے کی آزادی:

اظہار رائے کے حق کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابوبکرصدیق﷜نے فر مایا:

إن أحسنت فأعينوني، وإن زغت فقومونی[19]

لوگو! اگر میں اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دوں تو تم میری مدد کرو اور اگر میں اس میں کوتاہی کروں تو تم میری اصلاح کرو”

ظاہر ہے کہ جب تک اظہار رائے کی آزادی حاصل نہ ہوگی اس وقت تک حاکم کی اصلاح ممکن نہیں ہے۔

حضرت عمر بن خطاب ﷜جن کا رعب ودبد بہ مشہور ہے، مسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے، اس زمانہ میں مہر کی رقموں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا تھا، حضرت عمر ﷜کی رائے تھی کہ مہر کی مقدار مقرر کر دی جائے، تا کہ کوئی عورت اس سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے، چنانچہ حضرت عمر﷜نے اپنے خطبہ میں اپنی اس رائے کا اظہار کیا،

 اس مجلس میں ایک عمر رسیدہ خاتون شریک تھیں، وہ کھڑی ہوئی اور فرمایا کہ اے عمر بن خطاب ! آپ مہر کی حد مقر نہیں کر سکتے ہیں،

حضرت عمر﷜ نےپوچھا: کیوں؟

انہوں نے کہا: الله تعالی کا ارشاد ہے:وإن آتيتم إحداهن قنطارا فلا تأخذوامنه شيئا[20]  (اگر تم نے اپنی بیوی کو ڈھیر سا مال دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا )

حضرت عمر﷜نے اس خاتون کا استدلال سن کر اپنی رائے بدل لی اور فرمایا: أصابت امرأةوأخطا عمر(ایک عورت نے یہ کہا اور عمر نے غلطی کی ) [21]

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد خلافت کے مسئلہ پرثقیفہ بنی ساعدہ کے مقام پر صحابہ کا مشورہ ہوا، جس میں مہاجرین اور انصار صحابہ شریک ہوئے ،اس اجتماع میں مسئلہ خلافت پر غور وفکر کیا گیا، اس کے نتیجے میں تین آراء سامنے آگئیں، پہلی رائے یہ تھی کہ خلیفہ قبیلہ قریش میں سے ہونا چا ہے ، یہ رائے  حضرت ابو بکر ﷜کی تھی، ان کی دلیل حضور کایہ ارشادتھا:

إن العرب لن تعرف هذا الأمر إلا لهذا الحي من قریش، هم أوسط العرب نسلا و دارا (شرح أصول اعتقاد اھل السنت والجماعت، باب جماع فضائل الصحابة ،بید ابی بکر وترتیب الخلاف)

دوسری رائے یہ تھی کہ اہل مدینہ خلافت کے زیادہ اہل ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺنے مدینہ کو اپنا آخری ٹھکانہ بنایا لہذا خلیفہ ان میں سے کسی ایک شخص کو مقرر ہونا چاہئے۔

تیسری رائے یہ تھی کے دو امیروں کا انتخاب عمل میں آئے، ایک امیر انصار میں سے ہو اور دوسرا مہاجرین میں سے۔ اس موقع پر حضرت عمر نے ﷜ نے پرزور  خطاب فرمایا اور حضرت اابو بکر﷜کے ہاتھ پر بیعت کر لی، اس کے ساتھ ہی تمام صحابہ ﷢نے حضرت ابوبکر﷜کےہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح حضرت ابو بکر﷜ باتفاق رائے خلیفہ مقرر ہوئے (مصنف عبدالرزاق، کتاب المغازی، باب بید ابی بکر فی سقیف بنی ساعدة)۔

ائمہ حدیث اور اظہار رائے کی آزادی:

اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت اس بات سے بھی  سمجھی  جاسکتی ہے کہ ائمہ حدیث نے جرح و تعدیل کے فن کو فروغ دیا جس کا منشا یہ تھا کہ معلوم ہوجائے کہ کون راوی قابل اعتبار ہے اور کسی میں ثقہ کی کمی ہے، گویا کہ یہ بھی اظہار رائے کی آزادی کی ایک تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور یہ فن اس طرح فروغ پایا کہ ہر آ دی اپنی ذمہ داری محسوس کرتا تھا کہ اگر راوی میں کوئی کمی ہے تو اس کا اظہار کر دے، چنانچہ باپ بیٹے کی کمزوریوں کو بیان کر دیتا اور بیٹا باپ پر جرح کرتا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ کہ محدثین  اظہار رائے کی آزادی کو حفاظت دین کا اہم ذریعہ سمجھتے تھے۔

اظہار رائے کی آزادی اور فقہ اسلامی :

اظہار رائے کی آزادی اور شہریوں کے حقوق پر فقہاء نے” کتاب الامارة” اور”الياسۃ الاسلامیة”کے عنوان سے بحث کی ہے، اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ فقہاء نے آزادی اور حقوق کے مسئلہ کو دوسرے ابواب میں بیان نہیں کیا ہے، بلکہ یہ مباحث دوسرے ابواب میں بھی  موجود ہیں، مثلا ً فقہاء نے زوجین کے حقوق کو کتاب النکاح“ کے تحت ذکر کیا ہے، اسی طرح سماجی اور شہری حقوق کو” کتاب الجنایات اور کتاب العقوبات‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے، “ادب القاضی” کے تحت فقہ اسلامی میں جو احکام بیان کیے جاتے ہیں ان کا تعلق بھی حقوق سےہے۔ فقہاء نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کو ابواب الجهاد والسیر‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں ہے کہ تفصیل کے ساتھ حقوق کی بحث” بإب الامارۃ” اور” السياسة الشرعیۃ” کے تحت ہی کی گئی ہے، اس باب میں فقہاء نے حاکم وقت کی ذمہ داریوں اور ارباب حل و عقد کے فرائض کوتفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عوام الناس کے فرائض و واجبات کو بھی واضح کیا ہے۔

 یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سیکولر طرز حکومت اور اسلامی ریاست کی طرزحکمرانی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سیکولرحکومت کا دستور انسانوں کا مرتب کیا ہوا قانون ہوتا ہے، جس میں الحای ہدایات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے، اس کے برخلاف اسلامی حکومت کا دستور قرآن وحدیث ہے، چنانچہ ففہاء ،متکلمین، محدثین، مفسرین،ادباء، حکماء، صوفیاء سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت دین کی اساس پر چلنی چاہیے۔

 اس موضوع پر علامہ ماوردی نے اپنی کتاب”الاحکام السلطانيۃ” اورمشہور فقیہ ابن فرحون مالکی نے اپنی تالیف ” تبصرة الحکام” میں بحث کی ہے، ان کے علاوہ اس موضوع پر علامہ سعد الدین تفتازانی، امام منتظمین علام فخر الدین رازی اور علامہ ابن خلدون نے تفصیل سے کلام کیا ہے،ممتاز شافعی عالم امام بدر الدین بن جمعہ نے اپنی کتاب ” تحرير الأحكام في تدبيراہل الاسلام” میں حاکم پر شہریوں کے حقوق اور شہریوں پر حاکم کے حقوق کی تفصیل کو بیان کیا ہے۔

اس موضوع پر علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب “السياسة الشرعيۃ” میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

اسلامی ریاست شریعت کی اساس پر قائم ہوگی، اس کا فرض ہوگا کہ وہ اللہ کی شریعت کو جاری کرے، دین کا تحفظ کرے اور دینی امور میں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائندگی کرے۔اس نمائندگی کو علماء اسلام خلافت کہتے ہیں ۔

بہر حال اسلامی ریاست کے دستور میں اظہار رائے کی آزادی کا اہم دفعہ موجود ہے،فقہی نقطہ نظر سے اظہار رائے کے درجات میں بھی رائے کا اظہار کرنا واجب ہوتا ہے مثلا کوئی مسلمان منظر کو دیکھے اور وہ اس کو روکنے پر قادر ہوتو اس کو چاہئے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر ولتأخذن على يد الظالم (معجم الكبير للطبرانی)

اگر شریعت کے قوانین کی بے حرمتی ہورہی ہو تو اس وقت حق کا اظہار کرنا فرض ہوجاتا ہے، بنی اسرائیل کا واقعہ جو اصحاب السبت کے نام سے قرآن میں آیا ہے، ان کے عذاب کی  وجہ یہی بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگ اپنے سامنے منکرکو دیکھتے تھے اور اس پر اعتراض نہیں کرتے تھے ”كانوا لايتناهون عن منكر فعلوه[22]

”منکر“ کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا جرم ہے، جو لوگ برائیوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہارنہیں کرتے ہیں ایسے لوگوں کے انجام کو سمجھانے کے لئے رسول اللہ ﷺنے ایک کشتی کی مثال دی جو دو منزلہ ہو، اگر اوپرکی منزل والے لوگ، نیچے کی منزل والے لوگوں کو کشتی میں سوراخ کرنے سے نہ روکیں گے تو سب غرق ہوجائیں گے [23]

اظہار رائے کی آزادی اور اخلاقی و قانونی حدود:

حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اظہار رائے کی آزادی کا حق لوگوں کو مطلق نہیں دیا گیا ہے، دنیا کے ہر قانون ودستور نے اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں اور اسی  دائرے میں اس کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی آدمی ان حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اس کا عمل قانون اور دستور کے مغایر سمجھا جاتا ہے، چنانچہ یورپی ممالک میں Public Decency Laws بنے ہوئے ہیں، تا کہ بچوں کو بھڑکانے والے مواد سے روکا جا سکے، انگلینڈ میں ملکہ کی اہانت قانونا جرم ہے۔ اسی طرح وہاں یہودیوں، کالوں، عورتوں اور غیرملکیوں کی اہانت ممنوع ہے، جرمنی میں اگر کوئی شخص ہٹلر کی تعریف کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے، برطانیہ میں ہم جنسی کے خلاف بولنا جرم ہے، امریکہ میں صیہونیت پرتنقید بہت مہنگی پڑتی ہے، چنانچے ہولوکوسٹ‘‘ کے حقائق کے بارے میں ایک امریکی جج کی زبان سے کچھ تبصرہ نکل گیا تو و ہ فو راً قابل سزا جرم قرار پاگیا۔

اسلام نے بھی اظہار رائے کے حق کو کچھ شرطوں کے ساتھ مقید کیا ہے، تا کہ انسانوں کی اس آزادی کو غلط استعمال سے روکا جا سکے، چنانچہ اسلام میں غیبت کرنا ، چغلی کھانا،  کسی کی کردارکشی کرنا، دوسروں کا تمسخ کرنا کسی پر الزام لگانا دوسروں کے عیوب کا افشا کرنا حرام قرار دیا گیا ہے؟

کیوں کہ ان حرکات سے کئی سماجی و معاشرتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، ان کے علاوہ بہت سارے ایسے امور ہیں جن کو مطلق حرام قرار دیا گیا ہے مثلا ً: مسلمانوں کی تکفیر کرنا کسی پرزنا کا الزام لگانا، اللہ اور رسول کی شان میں گستاخی کرنا، دوسرے مذاہب کے معبودوں و پیشواوں کو برا بھلا کہناء اللہ تعالی فرماتے ہیں:

ولاتسبوا الذين يدعون من دون الله فيسبوا الله عدوا بغير علم[24]

اے مسلمانو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں)۔

اسلام میں اظہار رائے کے وقت کو استعمال کرنے کے لئے یہ  شرط ہے کہ وہ شخص عاقل ہو، اس میں اتنی اہلیت موجود ہو کہ وہ اپنی رائے کے مالہ وماعلیہ سے واقف ہو، اس کو کسی ایسے معاملہ میں رائے نہیں دینی چاہئے جس سے وہ کما حقہ واقف نہ ہو اور پھر اسی معاملہ میں رائے دے جو اس سے متعلق ہو، لہذا ایسے معاملہ میں نہیں بولنا چاہئے جس سے اس کا کوئی سروکار نہ ہو، رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:

من حسن الإسلام تركه ما لا يعنيه[25]

اظہار رائے کی آزادی کے حق کو استعمال کرتے وقت اس چیز کا خیال ہونا چاہئے کہ کوئی بات ایسی نہ بولے جس سے اسلام یا اسلامی شعائر کی اہانت ہوتی ہو، یا ایسی بات نہ کہے جس سے دوسروں کو زک پہنچے ، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

لاضرر و لاضرار (اسنن الکبری لیستی ، کتاب اصل ، باب لاضرر ولا ضرار)۔

اظہار رائے کی آزادی اور اس کے شرعی حدود:

1- شریعت میں اظہار رائے کے نام پر اللہ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی جائز نہیں ہے اور کوئی بھی ایسا عمل یا قول جو شریعت کے مقاصد سے ٹکراتا  ہو اس کا اظہار جائز نہیں ہوگا۔

2- انسان کی کرامت کی شریعت میں بہت اہمیت ہے، کیوں کہ اسی کرامت کی بدولت انسان کو تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں، لہذا انسان کی جان، مال، آبرو اور املاک کا تحفظ بے حد ضروری ہے اور کوئی بھی ایسی بات جس  کے اظہار سے انسان کے حقوق پامال ہوتے ہوں، وہ آزادی کے دائرے سے خارج ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام[26]

٣- اسلامی معاشرہ میں غیر اخلاقی باتوں کو آزادی کے نام پر پھیلا نا جائز نہیں اور جو لوگ ایسا کریں گے دردناک عذاب کے مستحق ہوں گے، الله تعالی فرماتے ہیں:

إن الذين يحبون أن تشيع الفاحشة في الذين آمنوا لهم عذاب أليم في الدنيا والآخرة[27]

جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزاکے مستحق  ہیں”

4- آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر لوگوں کی ذاتی زندگی میں داخل ہونا جائز نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا تُؤْذُوا الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ [28]

5- اظہار رائے کی آزادی کے نام پر دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کا مذاق اڑانا اس کو سب وشتم کرنا درست نہیں، مذہبی شخصیات اور مختلف مذاہب کی تعلیمات کو نشانہ بناتا یا اس کی تضحیک کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

6-کوئی بھی ایسی کوشش جس کا مقصد اسلامی نظام، اسلای وحدت کو نقصان پہنچانا ہو یا اسلامی سلطنت کی بنیادوں کو کمزور کرنا ہو یا کوئی ایسا اقدام کرنا جس سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہو سراسر غلط ہے، کیوں کہ اس سے امت میں انتشار پیدا ہوگا اور سماج کا امن درہم برہم ہوگا۔

اظہار رائے کی آزادی اور اہل مغرب کا دوہرا معیار:

مغرب میں آزادی کا عجیب وغریب تصور ہے، ایک طرف وہاں پر انسان کو حق و یا جاتا ہے کہ جیسی  زندگی گزارنا چاہے، گزارے، بے حیائی کا جو کام کرنا چاہے کرے، یہاں تک کہ ہم جنسی بھی ان کی نظر میں معیوب بات نہیں ہے لیکن اگر کوئی مسلمان عورت اسی آزادی کے تصورکے تحت والی زندگی میں جاب کرتی ہے تو پھر وہ قانون ممنوع ہوجاتا ہے، آزادی کا یہ ایسا تصور ہے کہ جس کی تشریح  ناقابل فہم ہے۔ اقوام متحدہ ایک طرف اظہار رائے کی آزادی کی مطلق حمایت کرتا ہے تو دوسری طرف قرارداد پاس کرتا ہے کہ ہولوکوسٹ‘ کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ۲۰ ملین یہودیوں کے جذبات کا تو اتنالحاظ  ہے، لیکن ڈیڑھ بلین مسلمانوں کے جذبات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ مغربی میڈیا مسلمانوں کے پیغمبر کی تصویر مسخ کرکے پیش کرتا ہے، شان رسالت میں فن، ادب اور آزادی صحافت کے نام پر گستاخی کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا، اس دوہرے رویہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، آج مغرب جس آزادی صحافت کی بات کرتا ہے، وہاں صحافت پورے طور پر آز ادنہیں صورت حال یہ ہے کہ کی اخبار کی مجلس ادارت اور رپورٹ بنانے والا سکشن کسی سیاسی رائے کو شائع کرنے میں آزار نہیں ہوتا ہے، بلکہ صحافیوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ نیوز کو الٹ پھیر کر کے پیش کریں، تا کہ اہل اقتدار کے مفاد کوضرب نہ پہنچے، لہذا یہ کہنا کہ اظہار رائے کی آزادی کے حد ود نہیں ہیں، یہ بات بعید از حقیقت ہے۔

[1]         المعجم الكبير للطبراني (11/ 186)

[2]         [التوبة: 71]

[3]         (المائدہ:۸)

[4]         (العصر: ۳)

[5]         (ھود:۱۸)

[6]         (النساء:۵۹)

[7]         (البقرہ:۲۵۲)

[8]         (انعام:۱۰۵)

[9]         سنن الترمذي (4/ 483)

[10]       سنن أبي داود ت الأرنؤوط (6/ 400)

[11]       صحيح مسلم (3/ 1470)

[12]       المعجم الكبير للطبراني (10/ 146)

[13]       سنن الترمذي ت شاكر (4/ 468)

[14]       (آل عمران:۱۵۹)

[15]       (الشوری : ۳۸)

[16]       (سیرت ابن ہشام، باب غزوة بدر مشورة الباب على رسول الت صلی الله علیہ وسلم، البدایہ والنہایہ ، باب غزوة بدرالی ، ۲/۲۹۳)

[17]       (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ،فصل في الجهاد والمغازی و السرایاو البعوث، فصل فی ہدیہ فی الاساری)۔

[18]       (صحیح البخاری:۳۶۱۰)

[19]       (السیرة النبوية لابن ہشام:۱۰۷۵/۴)

[20]       (النساء:۲۰)

[21]       (ا لجامع الاحکام القرآن للقرطبی: ۵, ۹۵)

[22]       (المائدة:28)

[23]       (صحیح البخاری:۹ ۲۶۸)

[24]       (لا نعام:۱۰۸)

[25]       الموطأ – رواية محمد بن الحسن (3/ 411)

[26]       سنن الترمذي (4/ 461)

[27]       (النور:19)

[28]       المعجم الكبير للطبراني (11/ 186)

Table of Contents

Recent