Alhikmah International

اسلام اور فکر اسلامی

:اسلام اور فکر اسلامی

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اپنی فکر ،ثقافت، اور تہذیب و تمدن کے ساتھ اس دور کے بڑے بڑے چیلنجیز کے سامنے کھڑا ہے خاص طور پر پچھلی چار دہائیوں سے اسی تناظر میں جب ہم فکر اسلامی کی ترویج وتفہیم اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہیں تو گلوبلائزیشن کے ا س تیز رفتار دور میں اسے مختلف قسم کے چیلنجزکا سامنا ہے جو بہت مہلک ثابت ہورہے ہیں۔ یہ داخلی ,خارجی ،علمی ، فکری،سیاسی ، مادی ،ثقافتی ، تہذیبی اورر  سماجی ہیں اور معاشرتی بھی,۔پس اسی وجہ سے اسلام، فکر اسلامی،مسلمان اور اسلامی ورثہ ماہرین کے لیے ایک ایسا موضوع بحث بن گیا جس میں سیاسی،عسکری،ماہرین تعلیم وغیرہ شامل ہیں یہاں تک کہ اس پر غور وفکر کرنا ایک انتہائی ضرورت بن گئی۔

جب کہ ایک طویل عرصے تک فکر اسلامی کےترجمان اور شارحین نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امت کی جو رہنمائی فرمائی ، اس کا تعلق براہ راست دین سے ہو یا سیاست سے یاپھر اس کا تعلق سماج و معاشرہ سے ہویا پھر زندگی کے کسی بھی شعبے سے ، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی قریب میں قوموں اور ملکوں کے حالات میں جو غیر معمولی تغیر واقع ہوا ہے، جو لا دینیت اور دہریت سے بھی لبریز ہے، جسے کہیں نہ کہیں ہر انسانی ذہن قبول کرنے کو تیا ر ہےاور اس فکر کی نگرانی کے لیے مختلف ادارے، مراکز اور ریسرچ سینٹر بھی بنائے گئے ہیں اب اس فکر کی توضیح اس کے مصادر اور اصطلاحات کا تذکرہ کرتا ہوں تاکہ پڑھنے والا اس فکر سے واقف ہو سکے۔

اسلام سے کیا مراد ہے۔؟

اسلام سے میری مراد سب سے پہلے قرآن مجید ہے۔ دوسرے نمبر پر جو چیز سنت نبویہ سے صحیح ثابت ہو، ہر وہ چیز جو سنت نبویہ میں سے ہو اور جس پر علماء و محدثین کا اتفاق ہو تو وہ اسلام ہے اور وہ اسلام سے ہے اور ہر وہ بات جس میں علماء کا اتفاق ہے تو وہ محل نظر ہے اور اجتہاد ہے وہ صرف اس کے قائلین کے لیے ہی لازم ہے جو اس کی تصحیح پر اطمینان کرتے ہیں۔

اور اسلام سے میری مراد جس پر نصوص القرآن اور سنت صحیحہ دلالت کریں اور  اس کے معانی،احکام، مقاصد اور قواعد دلالت کریں اور ایسی دلالت کریں جو بلکل واضح ہو، پھر وہ چیز جس پر علماء کا اجماع واقع ہو اور پھر جس پر مذاہب اسلامیہ متفق ہوں اور اس عمل مسلسل عمل ہوتا ہوا آرہا ہو۔

اور جو اس کے علاؤہ ہیں جس میں اختلاف ہے وہ لوگوں کا اجتہاد ،آراء اور  ترجیحات ہیں لہذا اس کو لیا بھی جاسکتا ہے اور اس کو چھوڑا بھی جاسکتا ہے، اور ان کی اجتہادات کا ان کی حجیت کے بقدر احترام اور قدر کی جائے گی، لیکن ان کو مراجعت اور غور وفکر کے سامنے جھکایا جا سکتا ہے اور ان کو لیا بھی جاسکتا ہے اور رد بھی کیا جاسکتا ہے اگر چہ اس کا کہنے والے اور لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔

فکر اسلامی سے کیا مراد ہے۔؟

فکر دراصل انسانی غور و فکر کے نتیجے کا نام ہے۔ انسان جب بھی غور و فکر کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچتا ہے تو وہ اس کو فکر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ فکر کی تشکیل میں دو چیزیں بنیادی ہوتی ہیں جو اس فکر یا نتیجہ فکر کی شناخت فراہم کرتی ہیں۔ ایک وہ موضوع جس پر غور و فکر کرکے انسان کسی نتیجہ تک پہنچا ہو اور دوسری وہ بنیاد اور وہ مرجع جس پر غور و فکر کی پوری عمارت قائم کی گئی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کسی نے سیاست سے متعلق غور و فکر کر کے اپنا کوئی نتیجہ اور خلاصہ پیش کیا ہو تو اسے اس شخص کی سیاسی فکر کہا جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے معاشی مسائل سے متعلق غور و فکر کے نتیجے میں کوئی فکر پیش کی تو اسے معاشی فکر کے زمرے میں رکھا جائے گا۔

 اسی طرح ثقافتی فکر، تربیتی فکر، تہذیبی فکر اور مذہبی فکر وغیرہ کی اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں۔ اور اس غور و فکر کے لئے اس نے جن مصادر کا استعمال کیا ہو وہ اس کی نسبت کے طور پر استعمال ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص نے یونانی مصادر معرفت پر پورا انحصار کیا ہو تو اسے یونانی سیاسی فکر کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یا اسی طرح اگر کسی نے جدیدیت کے فریم ورک میں غور و فکر کا پورا عمل انجام دیا ہو تو اسے جدید سیاسی فکر کے زمرے میں رکھا جائے گا۔ گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فکر دراصل ایک انسانی عمل ہے جو اس کی عقل کے استعمال اور اس کے غور و فکر کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔ لیکن یہ غور و فکر دو حوالوں سے ایک قسم کی حد بندی میں ہوتا ہے۔

 ایک تو یہ کہ وہ غور و فکر کسی نا کسی موضوع یا مسئلے سے متعلق ہوگا یا دوسرے لفظوں میں وہ مخصوص حالات اور مخصوص تناظر میں کیا جائے گا یا یوں بھی کہیں کہ غور و فکر میں انسان کے حالات اور مسائل کا کردار بہت اہم اور ضروری ہے۔ دوسرا یہ کہ ہر انسان غور و فکر کرنے کے لئے کوئی نا کوئی فریم ورک اور مصدر معرفت کا استعمال ضرور کرے گا اور رہی فکر اسلامی تو وہ فکر جس کا فریم ورک،جس کا مصدر ،جس کا مآخذ اور بنیاد اسلام ہو ،پھر ہر وہ اجتہاد ہر وہ افکار ہر وہ تشریحات اور تخلیقات جو اس مصدر کے تحت رہ کر کی جائیں فکر اسلامی کہلاتی ہیں۔

پھر مجتہد کے لیے لازم ہے کہ وہ اسلام کو ہی اپنی فکر کا مرجع بنائے اس کی نصوص سے مدد حاصل کرے اس کے نظریات پر اعتماد کرے اس کے عقائد پر اعتقاد رکھے اور اس کے تمام طریقوں کا استعمال کرے اور تمام کا تمام اجتہاد اسلام کی روشنی میں کرے پھر اس کے موافقات کو لے اور اس کی متعارضات کو چھوڑ دے۔

اسلامی فکر سے متعلق اس گفتگو کے بعد یہ سمجھنا آسان ہے کہ اسلامی فکر دراصل ایک انسانی کوشش کا نتیجہ ہے جن میں اسلام کو مرجع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ البتہ اس سے یہ مطلب نکالنا غلط ہوگا کہ اسلام اور اسلامی تعلیمات مکمل طور سے انسانی کوشش کا نتیجہ ہیں چنانچہ اس میں غلط اور صحیح دونوں کا امکان ہے۔

بلکہ اسلام کا ایک حصہ وہ ہے جس کی حیثیت بنیاد کی ہے اور اس پر مسلم علماء اور مفکرین کا اتفاق ہے یا وہ مسلمانوں کے درمیان مسلمات اور قطعیات سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ساتھ ایک بڑا حصہ ان چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے جو انسانی فہم اور انسانی تفکیر پر منحصر ہوتا ہے چنانچہ اس میں اختلاف کی بھی پوری گنجائش ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس میں ارتقاء اور تبدیلی کے بھی پورے امکانات ہوتے ہیں۔ اسلامی تاریخ اور اسلامی لٹریچر کی تاریخ کے سرسری مطالعے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کا بڑا حصہ ان چیزوں پر مشتمل ہے جن کا تعلق انسانی کوششوں سے ہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے جیسا کہ اوپر ہوئی گفتگو سے بھی واضح ہے کہ اسلامی فکر کے تین اجزاء میں سے تینوں اجزاء میں اختلافات کی پوری گنجائش موجود ہے اور یہ اختلافات ایک وقت میں مختلف غور و فکر کرنے والوں اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ حالات کو سمجھنے اور نصوص کو سمجھنے میں بھی  سامنے آسکتے ہیں گویا یہ اختلافات افقی بھی ہوسکتے ہیں اور عمودی بھی،لہذا اسلامی فکر وہ فکر ہے جو اسلامی ثقافت، تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتا ہے،اور اپنا اظہار خیال ہر ایک کے لیے واضح کرتی ہے۔

عام طور پر علوم اسلامیہ یا علوم شرعیہ (تفاسیر، شروحات حدیث،فقہ ،اصول فقہ ، صوفی فکر،فلسفی فکر، اسلامی تربیتی،اجتماعی،سیاسی اور اقتصادی تعلیم) پر فکر اسلامی کا لفظ بولا جاتا ہے اور یہ بڑے بڑے نام تھے جن کو اس فکر کے تحت لایا جاتا ہے، لیکن یہ درست نہیں کہ ہم چند چیزوں کو دیکھ کر اس پر اسلامی فکر کا لیبل لگا دیں ،اس فکر کو اس وقت تک اسلامی فکر کا نام نہیں دیا جاسکتا جب تک اس پر شرعی نصوص اور شرعی اصول بلکل واضح طور پر دلالت نہ کریں۔

امور دین اور اس کی حقیقت سے کیا مراد ہے۔؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ اول سے لے کر آخر تک جو دین نازل ہوے ہیں ان ادیان میں اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس کو ایک خاص صفت کے ساتھ پکارا گیا اور باقی ادیان کو عام صفت کے ساتھ پکارا گیا۔

اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ِانَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ” [1]کہ میرے نزدیک اگر کوئی دین قابل قبول ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے “

“اسلام کے امور” یا دین کےامور” کی وضاحت کرنا مذہب کو سمجھنے ، اس کے احکام کو کم کرنے یا اس کے کچھ مسائل پر بحث کرنے کی ہر کوشش میں ایک مرکزی اور بنیادی نکتہ ہے یا کچھ متعلقہ مسائل خاص طور پر ایک شدید تضاد کے ظہور کے بعد اس معاملے میں تضاد اور عدم مطابقت کے مقام پر پہنچنا۔

 کیا دین لوگوں کو قید کرنے والا ہے؟ یا لوگوں کو آزاد  کرنے والا؟ کیا دین روشنی ہے اور رہنمائی ہے؟ یا یہ اندھیرا اور توہم پرستی ہے؟ کیا دین ایک بیماری اور کرپٹ سیاست ہے؟ یا اس کی دوا اور اس کا علاج؟ کیا دین سلامتی اور امان ہے؟ یا دین جنگوں کی مشعل اور ان کا ایندھن ہے؟ یا یہ بجھا اور فعال ہے؟ کیا  دین محبت اور ہم آہنگی پھیلاتا ہے ؟ یا نفرت اور جھگڑا پھیلاتا ہے ؟ کیا دین ایک نعمت اور خوشی ہے؟ یا یہ مصیبت اور مشکل ہے؟ کیا دین انسانی مسائل کو حل کرتا ہے؟ یا وہ اسے پیدا کرتا ہے؟

سچ یہ ہے کہ ان متضاد دوہروں میں سے ہر ایک کے لیے ایسے لوگ ہیں جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔ آئیے ہم ان متضاد وضاحتوں کی درجہ بندی کریں اور انہیں دو پہلوؤں میں مختصر  بیان کریں۔

  مثبت پہلو                 2۔ منفی پہلو

 پہلا سبب: اس سے مرادمذہب  پر  ایمان اور اس کا  انکار ہے۔

پس مومن لوگ دین پر ایمان رکھتے ہیں اور وجہ ایجابی کے قائل ہیں۔ اور جو ان کے علاؤہ ہیں وہ دین کا انکار کرتے ہیں اور وہ وجہ سلبی کے قائل ہیں، اسی وجہ سے وجہ سلبی مارکس کے ہاں بہت برے درجات پر پہنچ گئی تھی اس نے دین کے لیے بری ترین صفات استعمال کی ان میں سے مشہور ترین یہ صفت ہے کہ دین لوگوں کے لیے ایک قید خانہ ہے۔

دوسرا سبب: اس سے مراد کہ دین کا تصور اور اس کے احکام بذات خود دین ہیں جو اس کے رسولوں اور کتابوں نے بتلائے یا پھر اس کی تطبیقات اور مصادر سے جو چیزیں واضح ہوتی ہیں؟ یا  ایک ردی رائے ہے اور  سیاہ تاریخ ہے ۔؟

پس جو  پہلے تصور پر انحصار کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مذہب اور مذہب کے بہت سے مثبت افعال کو روشن اور باعزت پائیں گے اور جو شخص دوسرے پہلو پر انحصار کرتا ہے ، اسے مختلف اوقات اور ممالک میں ملازمت اور مذہب کے غلط استعمال کے لیے سیاہ ، سیاہ چہرے ملتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انصاف کے لیے مذہب پر اور اس کے اچھے اور درست استعمال پر انحصار کی ضرورت ہوتی ہے، صرف منفی طریقوں پر انحصار نہیں کیا جاتا اور حالات کی تشریحات ، جو مذہب کے نام پر تقسیم کی گئیں ، وہ اجتہاد کا ایک حصہ ہے جو درستگی کو بھی پہنچ سکتا ہے اور خطاءکو بھی پہنچ سکتا ہے اگر ہم مذہب کے کام اور مقاصد کے تعین میں پر انحصار کرتے ہیں تو ہمیں مثبت پہلو ملتا ہے۔  اس کے تمام مظہروں میں  ایک واضح اور ناقابل تردید پہلو ملتا ہے  جس کا کچھ عرصہ پہلے ذکر کیا گیا ہے۔

ہمیں سب سے پہلے نبیوں کی زندگیوں کا مطالعہ کرنا ہوگا ، اور ان کرداروں  کا جو انہوں نے اپنے دور میں ادا کیے اور وہ اثرات جو انہوں نے اپنے جانے کے بعد چھوڑے۔  وہ ثقافتوں اور تہذیب و تمدن کے بانی ہیں۔وہ ہدایت اور انصاف کے چراغ ہیں،اور تعلیم اور تعریف کے علمبردار،وہ اچھے اخلاق ، محبت ، رواداری ، ہمدردی اور باہمی انحصار کے حامی ہیں،وہ جہالت ، ناانصافی اور بدعنوانی کے خلاف مجاہد ہیں۔

اس کے لیے ہم سب سے پہلے صحیح اور واضح نصوص پڑھتے ہیں ،جو دین کے مشن اور کام کی وضاحت کرتا ہے ،جو نصوص ابہام یا تشریح کوقبول نہیں کرتی ہیں، اور نہ ہی انہیں کسی وضاحت یا تبصرہ کی ضرورت  ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے فرامین ہیں فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى[2]   

(تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا ،  نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ محروم رہے گا!)

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ”[3]

 (اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے )

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ[4]

 (یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان  / ترازو   نازل فرمایا۔)

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا (24) رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِنْ تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا (25) وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (26) إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا (27) وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ تَرْجُوهَا فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُورًا (28) وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (29) إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا (30) وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (31) وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (32) وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا (33) وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (34) وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (35) وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (36) وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا (37) كُلُّ ذَلِكَ كَانَ سَيِّئُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا (38) [5]

اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے  کہ تم اس کے سوا  کسی  اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا ۔  اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ،  نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت  کرنا ۔ (23) اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا  اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے ۔ (24)  جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ  تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے ۔  (25)  اور رشتے داروں کا اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو  اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو ۔(26) بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے ۔ (27) اور اگر تجھے ان سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی  اس رحمت کی جستجو میں ،  جس کی تو امید رکھتا ہے تو بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے ۔ (28) اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے ۔   (29)  یقیناً تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جس کے لئے چاہے تنگ  یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے ۔  (30)  اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مار ڈالو  ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں ۔  یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے ۔   (31) خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ۔  (32) اور کسی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے ہرگز ناحق قتل نہ کرنا  اور جو شخص مظلوم ہونے کی صورت میں مار ڈالا جائے ہم نے اس کے وارث کو طاقت دے رکھی ہے کہ پس اسے چاہیے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بیشک وہ مدد کیا گیا ہے  ۔   (33)  اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو ،  یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے  اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے  ۔(34)  اور جب ناپنے لگو تو بھر پورے پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو ۔  یہی بہتر ہے  اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے ۔  (35) جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت  پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے  ۔  (36) اور زمین میں اکڑ کر نہ چل کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے ۔   (37) ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کے نزدیک  ( سخت ) ناپسند ہے ۔ (38)

یہ تمام آیات  اسلام کے اصولوں ، تعلیمات اور ترجیحات کا ایک مجموعہ ہے۔کسی کو حق نہیں ہے۔کہ اسے نظر انداز کریں یا اس سے تجاوز کریں ، اور وہ اپنے مشن اور اس زندگی میں اپنے کام کی حقیقت کی وضاحت کرنا چاہتا ہے بلکہ یہ تو ہر اسلامی فکر کا معیار اور فیصلہ ہےا ور اس کی اسلامی ہونے کی حد ہے۔

اور یہ تمام باتیں جو میں عنوان (اسلامی فکر اور ہمارے مسائل)کے تحت لکھتا ہوں  یہ بنیادی طور پر دین  کی تفہیم اور فقہ کا اظہار ہے۔ ان میں سے جو بھی اسلام کے اصولوں اور شواہد سے متفق ہے ، پھر وہی مقصود اور مقبول ہیں اور جو اس کے موافق نہیں ہے تو وہ ایک رائے ہے جو بازار میں آراء کے لیے پیش کی جاتی ہے۔

نیز ، “اسلامی فکر” کے اظہار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں دوسروں کا اظہار کر رہا ہوں جو اس خیال سے وابستہ ہیں ، بلکہ وہ اس کے مصنف اور اس کی ذمہ داری کے بارے میں فقہ اور رائے ہیں۔

جہاں تک ہمارے عصری مسائل کا تعلق ہے ، اس سے کیا مراد ہے خاص طور پر کچھ مسائل جو اسلامی فکر سے متعلق ہیں۔  اور اسلامی دنیا  اور ہمارے وقت اور حالات سے متعلق ہیں وہ  دین  اور ریاست، مذہب اور سیاس- اسلام میں حکومت کا نظام اسلام اور جمہوریت ،شدد اور دہشت گردی ،شریعت کا اطلاق ،عوامی آزادیاں، ارتداد کی سزا، عورت کی آزادی اور تکثیریت خواتین کے مسائل شامل ہیں۔

[1]             (آل عمران:19)

[2]         (طه:۱۲۳)

[3]       (الانبیاء:۱۰۷)

[4]       (الحدید:25)

[5]         (الاسراء:33/38)

Table of Contents

Recent