دنیا میں جتنے بھی معاشرے وجود میں آئے ہیں وہ اصلاً دو چیزوں پر وجود میں آئیں ایک جذبات/ایمانیات دوسری ضروریات (روٹی، کپڑا، مکان تعلیم، صحت)۔ چنانچہ اس بات کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی معاشرہ محض ضرورت کی بنیاد پر وجود میں نہیں آتا ہے، چنانچہ اب جب مغرب نے مذہب کا ہی انکار کر دیا تھا تو ان کے پاس ایسا کوئی جذبہ نہیں رہا جس پر وہ اپنے معاشرے کو اکٹھا کر سکیں لہذا انہوں نے کچھ ضروریات کو جذباتیات کا لبادہ اوڑھا کر کھڑا کیا اور اس کی ایک مثال “وطن پرستی”(Patriotism) ۔ اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا :
ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا وطن ہے
پیرہن اس کا جو ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اسلامی معاشرے کی بنیاد ایمانیات ہوتی ہیں جبکہ ضروریات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں ہر اکائی کی بنیاد ایمان ہوتی ہے ۔بادل ناخواستہ یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ گزشتہ دو سو سال سے مسلم معاشروں کی بنیادیں مغربی تہذیب کی چکا چوند کے نذر ہو چکی ہیں ، جس کی وجہ سے مسلم معاشروں میں بھی اس جذبہ کا کافی اثر و رسوخ نظر آتا جیسے فقط وطن کی خاطر لڑنا، قومی ترانے کے وقت کھڑا ہونا ،اس کے آخر میں سر جھکانا وطن کی بنیاد پر حسد اور بغض کرنا مسلمانوں کو برا بھلا کہنا۔ اسی وطنیت پرستی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم امت مسلمہ اٹھاون ممالک میں تقسیم ہو کر رہ گئی ۔ بقول اقبال :
تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملت آدم
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو اسلامی خطوط پہ استوار کریں ، اسلامی اقدار و روایات کو پروان چڑہائیں ، معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو عام کریں اور معاشرے میں موجود برائی کے تمام دروازے بند کر دیں ۔ اللہ تعالی نے بھی ہمیں اسی بات کی تلقیں کی ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
“نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو ، گناہ اور ذیادتی پر باہم مدد نہ کرو “