وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىَ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (آل عمران : 103)
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
(اقبال)
دنیا میں قومیت کی تشکیل کے دو تصورات ہیں ۔
ایک تصور جو مغرب نے پیش کیا ہے جو نسل ، رنگ و بو ، قومیت ، وطنیت اور اس طرح کے دیگر تصوارت پر قائم ہے
ایک نظریہ ملت وہ ہے جو اسلام نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے ، جو زبان ، رنگ ونسل اور اس طرح کے دیگر امتیازات سے بالاتر ہے اس کی بنیاد صرف کتاب و سنت ہے ۔
بتان رنگ و بو کو توڈ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی ، نہ افغانی
یہ حقیقت ہے کہ جب تک مسلمان اخوت ، یگانگت ، محبت ، ہمدردی ، اتحاد ویکجہتی اور مرکزیت پر قائم رہے تو ان کے عزائم آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتے تھے ، فتوحات ان کا مقدر رہیں ، کامیابی ان کے قدم چومتی رہی اور کتاب و سنت کو تھام کر دنیا کی سپر پاور طاقت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ۔
آج عالم اسلام میں نام نہاد قومی عصبیتوں کی وجہ سے اختلافات کی خلیج روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ، ہمارے مد مقابل کفر پر تول چکا ہے ، جو مسلمانوں میں قومیت ، لسانیت ، علاقائیت ، فرقہ واریت اور ثقافت کے نام پر تفرقہ کرنے میں مصروف عمل ہے ۔
وطن عزیز کو دو لخت کرنے کے باوجود ہمارے مفادات آج بھی لسانی ، علاقائی اور نسلی عصبیت پر ہیں ۔ ہمارے دینی حلقوں میں مذہبی اختلافات و انتشار بڑھتا جارہا ہے ، ہمارے علماء ، فقہاء اور خطیب حضرات ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ، اختلافی مسائل کو ہوا دینا ان کی قوت تقریر اور تحریر میں جلا بخشتا ہے ، ہمارے سیاستدان اقتدار کے لالچ میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ وہ اعلیٰ مفاد کو اہمیت ہی نہیں دیتے ، ان کی نظر میں ملت اسلامیہ کے اقتصادی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کوئی حثیت ہی نہیں رکھتے اور ثقافت کے نام پر ایسے رسوم و رواج کو اسلامی معاشرے میں رائج کرتا ہے جس سے اسلامی ثقافت و معاشرت کی بنیاد متزلزل ہو رہی ہے ۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان یکجا اور اتحاد پر قائم رہے ، کبھی 313 اور کبھی خالد بن ولید ، عمر بن الخطاب ، امیر معاویہ رضی اللہ عنھم ، محمود غزنوی اور محمد بن قاسم رحمھم اللہ کے سامنے صیہونی اور طاغوتی طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔
اگر ہم اسلاف کی یہ کھوئی ہوئی میراث واپس چاہتے ہیں تو ہمیں عرب وعجم کے اس خول کو ختم کرنا ہو گا ، فرقہ واریت ، قومیت ، علاقائیت اور نسل پرستی کے تمام خولوں کو ختم کرنا ہوگا ۔
ہمیں اپنے اسلاف کی روایات پر عمل کرتے ہوئے وحدت کے رشتے میں منسلک ہوکر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر کی ترجمانی کرنی ہوگی ۔
صرف کتاب وسنت کا راستہ ہمیں کامیابی کی منزل تک لے جائے گا ۔
✒️تحریر: عمرفاروق قدوسی متعلم الحکمۃ انٹرنیشنل
الحکمہ انٹرنیشل لاہور ، پاکستان ، زندگی شعور سے