اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے ۔ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناطے اسلام انسانیت کو چند عبادات یا معاملات تک محدود نہیں کرتا بلکہ ترقی اور کامیابی کی نئی نئی راہیں انسان کو دکھاتا ہے اور ان کی سر پرستی کرتا ہے ۔رہبانیت عیسائیت کا ایجاد کردہ طریقہ کار ہے ، رہبانیت کا حکم اللہ تعالی کی طرف سے نہیں تھا بلکہ عیسائیوں نے خود اسے اپنے اوپر لازم کر لیا تھا ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَرَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ (الحدید : 27)
“اور ترک دنیا جو انھوں نے خود ایجاد کرلی تھی۔”
عیسائیت کے اندر رہبانیت کی اساس اس پختہ یقین پر ہے جو انہوں نے ابو البشر آدم کی طرف سے کی جانے والی غیر ارادی غلطی پر کیا ہے ۔ جس نے ان کو جنت سے نکالوا دیاتھا ۔ یہ واقعہ نصاری کے ہاں معتبر قدیم عہد ناموں میں سےایک عہد نامہ ”کائنات کا سفر ” میں لکھا ہو ا ہے اور نصاری یہ سمجھتے تھے کہ آدم کے بیٹے او ر ان کے پوتے اس غلطی کے وارث بنے اوروہ نسل در نسل اس غلطی کے وارث بنتے رہے یہاں تک کہ نصاری کے مطابق عیسی آئےاور انہوں نے اس غلطی کے ازالے کے لیے اپنے آپ کو صلیب پر لٹکا کر جان دے دی تاکہ کائنات کو اس غلطی سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ان کے بقول حضرت عیسی نے جسم کو کمزور کروایا اور لوگوں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ انکو ماریں ان کا مزاق اڑائیں او ر ان کو قتل کر دیں ۔ یہ دلیل ہی ان کے لیے کافی ہے کہ جسم کو عذاب دینا واجب ہے اور اسی وجہ سے ہم ان کو دیکھتے ہیں کہ وہ جسم کو سزا او ر کمزور کرنے کے لیے زھد اور رہبانیت کو اختیار کرتے ہیں۔ اس قصےکی اصل قرآن کریم میں معروف طور پر ذکر ہے کہ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور حرام کردہ درخت سے پھل کھایا اور غلطی کر بیٹھے۔ لیکن سید نا آدم نے توبہ کی اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کیا او ر اللہ تعالی نے انکو معاف کر دیا۔ جس طرح قرآن مجید میں آیا ہے
وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ (طہ: 121 تا 122)
“اور آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا وہ بھٹک گئے۔ پھر ان کے پروردگار نے انھیں برگزیدہ کیا، ان کی توبہ قبول کی اور ہدایت بخشی۔”
آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور راہِ راست سے بھٹک گیاپھر اُس کے رب نے اُسے برگزیدہ کیا اور اس کی توبہ قبول کر لی اور اسے ہدایت بخشی۔ اور اسی طرح اللہ تعالی نے فرمایا:
فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
“پھر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔” ( البقرۃ : 37)
اس واقعہ کی اصل سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو معاف کر دیا تھا ۔ عیسی علیہ السلام کی سولی سے اس گناہ کی معافی کو جوڑنا اور اس سے تصوف ثابت کرنا ، سطحی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔اسلام رہبانیت کی تمام صورتوں کی نفی کرتے ہوئے مکمل وسائل و اسباب کے ساتھ آزادانہ زندگی گزرنے کی تلقین کرتا ہے ۔رہبانیت کی نفی کرتے ہوئےنبی ﷺ نے فرمایا:
لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الإِسْلامِ
“اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ” ( شرح السنۃ للبغوی: 371/2)
اسلام نہ تو مادہ پرستی کا قائل ہے اور نہ ہی رہبانیت کو پروان چڑہاتا ہے بلکہ اسلام مادیت اور رہبانیت کا حسن امتزاج ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ہمیں بہت ہی بہترین اورجامع دعا سکھائی ہے :
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( البقرۃ:201)
” اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ ”