موجودہ انسانی زندگی میں کرب و الم ایک لازمی چیز ہے ۔انفرادی اور اجتماعی سطح کی الجھنیں اورغم پریشانیوں کا باعث بن رہے ہیں ۔ ہم میں سے اکثر ساری زندگی اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہ یہ مسئلہ بس حل ہو جائے تو زندگی میں سکون آ جائے۔فلاں شخص ہمارے بارے میں مثبت ہو جائے تو زندگی میں سکون ہو جائے۔وہ چیز بس مجھے مل جائے تو زندگی پرسکون ہو جائے۔فلاں امتحان بس پاس ہو جائے،وہ ڈگری ،وہ عہدہ مجھے مل جائے تو زندگی کے مسئلے ختم ہو جائیں گے اور سکون مل جائے۔ میری یہ خامی مجھ سے دور ہو جائے۔بس میری یہ دعا قبول ہو جائے ۔
وہ سب چیزیں بھی ہمیں مل جاتیں ہیں ، مسئلے بھی حل ہوتے جاتے ہیں۔ حالات بھی بدلتے جاتے ہیں ،دعائیں بھی قبول ہوتی جاتی ہیں۔ انسانوں کے منفی رویے بھی بدل جاتے ہیں، پر پہلے مسئلے کے بعد کوئی اور مسئلہ آ جاتا ہے۔ پہلے محرومیاں دور ہونے کے بعد کچھ اور چیزوں سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔زمانے بھر کی خاک چھان کر سکون پھر بھی نہیں ملتا،دنیا بھر کے لوگوں کو راضی کر کے ۔ ساری دنیا کی چیزیں اپنے گرد اکٹھی کر کے، سکون پھر بھی نہیں ملتا۔ کیوں نہیں ملتا سکون….؟
کیونکہ سکون تو ہم نے تلاش ہی نہیں کیا ، ہم تواپنی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے تھے ۔ اگر خواہشات کو پورا کریں گے تو اس سے خواہشات بڑھیں گی نہ کہ کم ہوں گی ۔ ان چیزوں میں ا للہ نے سکون رکھا ہی نہیں۔ اللہ نے بتایا ہی نہیں کہ سکون خواہشات کی تکمیل میں ہے۔
سکون تلاش کرنے سے پہلے ہمیں ان مسائل اور پریشانیوں کا حل تلاش کرنا ہو گا ، جو روز مرہ کی زندگی میں ہمارے گلےکا طوق بنی ہوئی ہیں ۔ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ہماری تمام پریشانیوں اور غموں کی وجہ کتاب و سنت سے دوری ہے ۔ الہی تعلیمات سے کج روی نے ہمیں اغیار کا غلام بنادیا ہے ۔چنانچہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے مسائل کا حل کتاب و سنت سے تعلق مضبوط کرنے میں ہے ۔
اللہ نے تو بتایا ہے کہ سکون صرف اور صرف میری یاد میں ہے ،میرے ذکر ، میری عبادت میں ، میری اطاعت میں ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر دکھوں اور غموں کا مداوا کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ انفرادی اجتماعی سطح پر اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کریں ۔تو آئیے سکون کی تلاش کے لئے خواہشات میں وقت صرف کرنے کے بجائے عبادات الہی اور اطاعت الہٰی میں زندگی کی قیمتی سائنس گزار کر دنیوی و اُخروی سکون حاصل کر سکیں۔