مدارس دینیہ اسلام کاقلعہ ہیں ۔انفرادی اور اجتماعی زندگی کی راہنمائی ،معاشرے میں دین کی نشر و اشاعت ، فکر و عمل کی یکسوئی اور تربیت یافتہ افراد کی تیار ی مدارس اسلامیہ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ اسلامی شعائر کا تحفظ ، قرآن و سنت اور اسلامی روایات کا احیاء مدارس کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔تمدنی ترقی ، سائنس و ٹیکنالوجی ، طب اور ریاضی میں مدارس اپنا کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں ۔ مدارس اسلامیہ ہر دور کے فتنوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے ہیں ۔ اگر ماضی میں دیکھا جائے تو مدارس اسلامیہ مذکورہ اور اس کے علاوہ اپنی تمام ذمہ داریاں بحسن خوبی ادا کرتے آئے ہیں ۔لیکن اگر موجودہ دور میں دیکھا جائے تو کیا مدارس اسلامیہ اپنی تمام ذمہ داریاں حالات کے تقاضوں کے مطابق ادا کررہے ہیں ؟
ہم اپنے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ موجودہ دور کے فتنے مکمل ہمہ جہتی اور آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں ۔ کیا ابھی بھی مدارس اسلامیہ کامیاب ہیں؟ موجودہ مدارس اسلامیہ اپنے افکار و نظریات ، اپنی نصابی سرگرمیوں ، انداز تدریس اور انتظامی سسٹم سمیت کئی جہات سے روایتی شمار کیے جاتے ہیں ۔ جب کہ موجودہ دور بلکل اس کے برعکس ہے ۔
سیکولرزم ، کیمونزم ، کیپیٹلزم ، نیشنلزم اور الحاد جیسے نظریات دنیا پر غالب نظام تصور کیے جاتے ہیں اور پوری دنیا کو انہی کے مطابق چلایا جا رہا ہے ۔ لیکن ان کے تدارک کے لیے مدارس اسلامیہ کوئی خاطر خواہ کارنامہ ہائے سرانجام نہیں دے سکے ۔ مدارس اسلامیہ کا نصاب چند فروعی و انفرادی مسائل پر مشتمل ہے ، جس میں اجتماعی مسائل اور موجودہ دور کے فتنوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔
یہ تفریق کو سب سے پہلے بر صغیر میں انگریزوں نے پروان چڑہایا ۔ سائنس ،ریاضی ، طب اور دوسرے کئی علوم کو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے مربوط کر دیااور انہیں ڈگریوں سمیت سرکاری مراعات سے نوازا گیا ۔ جب کہ عربی و فارسی کو مدارس میں ہی رائج رہنے دیا ۔سیکولرزم کی بنیاد پر کی گئی یہ تقسیم سیکولر نظام تعلیم کی تشکیل کا سبب بنا ۔ اگر ہم اس سے پہلے کی صورت حال دیکھیں تو یہ تمام علوم مدارس میں پڑھائے جاتے تھے اور مسلمان ان علوم میں کئی ایک شاہکار متعارف کروا چکے تھے ۔ جس کی ایک مثال پیش خدمت ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم یہ تھا کہ ایک ہی مدرسے میں پڑھنے والے تین ہم سبق حضرت مجدد الف ثانی، عالم اور بزرگ بنے ، محمد خان بادشاہ وقت کا وزیر اعظم بنا اور معماراحمد خان تاج محل کا معمار بنا۔ ۱۸۸۶ء میں انگریزوں نے رڑکی میں پہلا انجینئر نگ کالج بنایا، لیکن اس کالج کے بننے سے پہلے تاج محل، بادشاہی مسجد، شالا مار باغ اور ہندوستان بھر میں تعمیرات کے اعلیٰ ترین شاہکارتخلیق کرنے والے کسی انجینئرنگ کالج سے فارغ التحصیل نہیں تھے۔ ہڑپہ، موہنجودڑو، بابل، نینوا، روم، ایران، یونان، چین میں آخر فنون کہاں سے سیکھے جاتے تھے؟ اہرام مصر بنانے والے فن کاروں نے کسی انجینئرنگ یورنیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔
نتیجتا ہم دیکھتے ہیں کہ فضلاء مدارس اجتماعیات کے شعبے میں راہنمائی تو درکنار تفہیم سے بھی قاصر ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس اسلامیہ انفرادی و فروعی مسائل کے ساتھ اجتماعی اور ملی مسائل کو بھی شامل نصاب بنائیں ۔حالات کے تقاضوں کے مطابق جدید دور کے فتنوں کا سدباب کیا جائے اور ان کے بلمقابل اسلام کو بحثیت نظام زندگی پیش کیا جائے ۔