روح کی تسکین ایک ایسی ضرورت ہے جس کے حصول کے لیے انسان کئی چیزوں کا سہارا لیتا ہے۔ ہر انسان اپنے مزاج کے مطابق ہی کسی چیز کو تسکین کا ذریعہ بناتا ہے۔ روح کی تسکین دینی والی چیزوں میں ایک موسیقی کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ مسلسل موسیقی سننے سے لوگوں میں ایڈکشن پیدا ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کا طبقہ خاصہ متاثر نظر آتا ہے۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ موسیقی کیوں سنتے ہو ؟
جواب یہی ملتا ہے موسیقی سن کر قدم رک جاتے ہیں دل مچلنے لگتا ہے، جسم تھرکنے کی لاشعوری کوشش کرتا ہے۔ موسیقی روح کی غذا ہے۔موسیقی روح کی غذا ضرور ہے لیکن بد روح کی۔ جیسی روحیں ویسی غذا!میوزک کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ سنی جانے والی پوپ، ریپ اور غزل ہیں۔پوپ جسے پارٹیوں اور میوزک کنسرٹس میں زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں اخلاق باختہ جملے اور جذبات کو بھڑکا دینے اور دل کو دھڑکنوں کو تیز کر دینے والے بول ہوتے ہیں۔ جو مردہ دل کو حرکت دیتا ہے۔جبکہ یہ سب دھوکہ ہے پوپ میوزک سے دل کا دھڑک اٹھتا ہے لیکن انہیں کا جو مردہ دل کو زندہ کرنے کی کنجی صرف اسے ہی سمجھتے ہیں۔
اگر باریک بینی اور غور سے دیکھاجائے تو یہ تمام باتیں ضحوکہ محسوس ہوتی ہیں ۔موسیقی سننے سے انسان کے مزاج پر دو طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو مکمل جذباتیت اور ایموشنل کیفیت میں مبتلا دیکھتا ہے ، اس کا خون جوش مارنے لگتا ہے ۔دوسری کیفیت جو انسان پر مبتلا ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو غمگین اور بے سہارا محسوس کرتا ہے ۔ یہ دونوں کیفیات موسیقی سننے سے انسان میں مزید پختہ ہو جاتی ہیں ۔جس سے انسان مزید ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے ۔
موسیقی مستقل بنیادوں پر دل کو حرکت نہیں دیتی جبکہ اللہ کا مسلسل ذکر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ذکر کرنے والے کی مثال زندہ کی سی ہے اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ کی سی ہے۔موسیقی دل کو کوئی مثبت حرکت نہیں دیتی یہ ہے بھی عارضی بلکہ اشتعال کا سبب بنتی ہے۔ یہ ہے بھی بے مقصد حرکت جس نے کھپنا کہاں ہے؟شراب، زنا اور فساد میں؟ جبکہ ذکر اپنے پیچھے اچھے اثرات چھوڑتا ہے جو کچھ دیر تک باقی رہتے ہیں اور بامقصد بھی ہوتی ہے کہ یہ حرکت خیر پیدا کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ
“(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں”
پس دل کو سکون دینے کے لیے بہتر ہے کہ اسی چیز کو اختیار کیا جائے جو مستقل بنیادوں پر ہو اور اس کے اثرات خیر بھلائی پر مبنی ہوں۔دوسری غزل ہےجس سے غم زدہ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے دل کو قرار میسر ہوتا ہے۔ یہ بات ایک پہلو سے درست ہے اور دوسرے پہلو سے غلط ہے۔ غزل وغیرہ صرف وقتی طور پر غم کو ہلکا کرتے ہیں مستقل طور پر نہیں جیسا کہ شراب وقتی طور پر غم کو بیگانہ کر دیتی ہے۔ غزل کی لذت کھجلی کی سی ہے کہ جسم میں پھوڑا ہو تو کھجلی کرنے میں مزا آتا ہے۔ لیکن یہ مزہ وقتی ہوتا ہے۔ مزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ زخم اور بڑھ چکا ہے۔
الغرض موسیقی کو روح کا سکون یا مردہ دل کی زندگی سمجھنا معرفت الٰہی سے نا آشنائی اور ذکر الہیٰ سے نا واقفیت ہی ہے۔ ذکر الہیٰ میں وہ سکون اور تازگی ہے جو دنیا جہاں کی کسی چیز میں ہو ہی نہیں سکتی۔ (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب)