جب انسان کسی شخصیت, گروہ اور جماعت کو حق کا معیار بنالے تو اسے تعصب کہتے ہیں۔
ی یہ ایک ایسا جذبہ ہے جب انسان اس کا شکار ہو جائے تو وہ حق اور حقیقت دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم اپنی پارٹی, جماعت اور مسلک کو ہی بس حق اور سچ سمجھتے ہیں۔ مذہبی, سیاسی اور سیکولر سمیت کوئی طبقہ اس سے مستثنی نہیں۔
ا اس کے برعکس اسلام اسے جاہلانہ رویہ قرار دیتا ہے۔ اہل عرب کی سوچ تھی کہ ہرحال میں اپنے قبیلے کی مدد کرنی چاہیے۔ اسلام نے کہا بس اس وقت معاونت کرو جب وہ مظلوم ہوں۔ لیکن جب ظالم ہو تو انہیں ظلم سے روکو۔ قرآن متقین کے لیے ہدات ہے۔ یعنی جو بغیر کسی تعصب کے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہدایت ہے۔
ہ ہمیں ہر حال میں حق اور سچ کا سا تھ دینا چاہیے۔ اگر ایک اچھی بات کسی فاحشہ سے بھی ملے تو لے لو اور بری بات کسی میمبر سے بھی ملے تو چھوڑ دو۔ اگر آپ پی ٹی آئی کے ورکر ہیں مگر نون لیگ کی کوئی اچھی بات سامنے آئے تو اسے خندہ پیشانی سے قبول کریں۔ اور اگر آپ نون لیگ کے ورکر ہیں مگر پی ٹی آئی کی کوئی خوبی سامنے تو اسے تسلیم کریں۔ اگر آپ اہل حدیث ہیں مگر بریلی کی کوئی خوبی ہو مانیں اور اگر بریلی ہیں تو اہل حدیث کا کوئی اچھا پہلو آئے تو اقرار کریں۔
مجازی تقسیمات : ا
ا اسی طرح اہل تشیع اور دیوبند کو بھی آپس میں رویہ اپنانا چاہیے۔ اہل حدیث, بریلی, شیعہ, دیوبند, پی ٹی آئی, نون لیگ, پیپلز پارٹی, جماعت اسلامی اور دیگر سب ذیلی تقسیمات کو محض اعتباری اور مجازی سمجھیں۔ ان کے تعصب کا شکار نہ ہوں۔ دوسروں کے بارے میں کشادہ دلی پیدا کریں۔
(استاذ عبد الحنان کیلانی)