تصوف مسلمانوں کے ہاں تزکیہ نفس کا ادارہ ہے ، جس کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا ۔ تصوف سے مراد نفس کی اصلاح ، اپنے آپ کو رزائل سے بچانا اور احسان کی طرف لے کر جانا ہے ۔ تصوف کی یہ صورت بلکل جائز ہے ، اس میں خرابی والی کوئی بات نہیں ۔ اس تصوف کو کئی علماء نے اختیار کیا ہے ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس تصوف میں انتہاء پسندی بڑھتی گئی ، جس سے یہ تصوف خرافات کی آماجگاہ بن گیا ۔
تصوف کے پہلے دور میں صوفی کتاب و سنت پہ چلنے والا اور اس کے احکامات کو ماننے والا ہوتا تھا ۔ جیسے جیسے تصوف میں خرافات بڑھی تو صوفی کتاب و سنت سے دور چلتے گئے ، حتی کہ موجودہ دور میں تو تصوف کی اصطلاح ایسے لوگوں پہ لاگو ہونے لگی ہے جنہیں کتاب و سنت کا سرے سے علم ہی نہ ہو۔ جو اپنی خرافات اور بناوٹی کرامات میں گم ہوں ۔ اگر کوئی صوفی کچھ خرافات سے ہٹ عبادت کرنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو وہ رہبانیت کی طرف راغب ہوتا ہے ، جو ایک نا پسندیدہ عمل ہے ۔
اسلام اس انتہاء پسندی اور راہبانہ رویے کی مذمت کرتا ہے ، اسلام دنیا اور آخرت دونوں کو اہمیت دیتا ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ { البقرہ: 201}
“اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے”
اسی طرح حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس طرح کے رویے کی مذمت کی ہے ۔
)) `جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا ، فَقَالُوا : وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا ، فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ((
)صحیح البخاری، ح:5063 (
“تین حضرات ( علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کر دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ فمن رغب عن سنتي فليس مني میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے”۔
چنانچہ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ اجتماع کی بھی اصلاح کریں ، جس طرح ہم ذاتی معاملات میں تصرف کرتے ہیں ، اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی تصرف کریں ۔ تاکہ فرد کے ساتھ اجتماع کی بھی بہتری اور اصلاح ممکن ہو سکے ۔