قوموں کی بلندی اور عروج میں کئی اقدار اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ ان میں سے بنیادی قدر ذمہ داری ہے ۔انسان کو اس دنیا میں بے شمار ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے ۔ جن میں سر فہرست خاندنی و معاشرتی سطح پر انفرادی و اجتماعی ذمہ داریاں ہیں ۔ گویا کہ انسان کی پوری زندگی ذمہ داریوں کی ہی تعبیر ہے ۔ نبی ﷺنے احساس ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا:
( أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَ وَلَدِهِ وَ هِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَ هُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ) رواہ المسلم
“تم میں سے ہرشخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا”۔
ذمہ داری کسی عہدے کا نام نہیں ہے بلکہ انسانی رویے کا نام ہے ، جس کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے ۔ شریعت اسلامیہ نے ہمیں ا نفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر ذمہ دار مقرر کیا ہے ۔ اللہ تعالی نے ذمہ داری کے تصور کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
“بیشک کان، آنکھیں اور دل ان سب سے سوال کیا جائے گا “
انسان کی شب و روز کی کامیابی ، ترقی کی نئی نئی راہیں ، منزل کا حصول اور زندگی میں ربط سب کچھ ذمہ داری کے مرہون منت ہے ۔ اسلام جس طرح انسان کو اس کے انفرادی مسائل میں ذمہ داری کے تصور سے آگاہ کرتا ہے بلکل اسی طرح اجتماعی زندگی میں بھی ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
موجودہ مسلم دنیا کے خراب حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ امت کے بڑوں میں احساس ذمہ داری باقی نہ رہا تھا ۔ سیاسی و معاشی امور میں ذمہ دار افراد کا فقدان ، علماءکا فکری راہنمائی کے میدان میں ذمہ دارانہ رویے سے انحراف ہمارے زوال کی بڑی وجوہات ہیں ۔ غیر ذمہ دارانہ رویہ غفلت سستی اور کاہلی کو جنم دیتاہے ۔جو کسی بھی قوم کے زوال میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔
اگر ہم اپنا ماضی دوہرانہ چاہتے ہیں اور تو ہم میں سے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے گا ، آج کے کام کو آج ہی کرنا ہو گا ، خواب غفلت کو چھوڑ کر ذمہ دار معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی ۔ وسائل کا درست استعمال کرنا اور معاملات کی تکمیل کو اپنی عادت بنانا ہو گا۔ اللہ تعالی ہمیں انفرادی اور اجتماعی معاملات میں قرآن و سنت کا تابع بنا ئے۔ (آمین)