موجودہ دور میں انسان کئی نفسیاتی مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ اسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانوں نے اس کا علاج بھی اپنے اپنے طریقہ سے ایجاد کیا ہے۔
ان میں سے ایک علاج موسیقی اور شاعری کو تصور کیا جاتا ہے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ کیا موسیقی ان مسائل کا حل ہو سکتی ہے؟؟؟
میں ذاتی طور پہ انسانوں کے ایجاد کردہ ادب اور اللہ رب العزت کے کلام میں بہت فرق محسوس کرتا ہوں۔ ان فروق میں سے ایک فرق مندرجہ ذیل ہے:
یہ بات واضح ہے کہ انسانی مزاج مختلف مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ کبھی انسان اتنا جذباتی اور اپنے آپ کو اتنا طاقتور محسوس کرتا ہے کہ سب کچھ اس کے کنٹرول میں آ جائے۔ اور کبھی انسان اپنے آپ کو ڈپریشن کا شکار سمجھتے ہے
اور غم کی گھاٹیوں سے گزرتا ہوا اپنے آپ کواتنا کمزور سمجھتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں سے موت کے گھاٹ اتار لیتا ہے۔
میں نے اس بات پہ بخوبی غور کیا ہے کہ موجودہ ادب یا شاعری کا مزاج ایسا ہے کہ یا تو انسان غم کی وادیوں میں اترتا جاتا ہے۔ اور مزید مایوسی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ انسان مزید جذباتی اور اتنا طاقتور تصور کرنے لگتا ہے کہ شائد وہ سب سے بڑا ہے اور تمام انسان اس کے آگے زیر ہیں۔ حتی کہ بذات خود بلڈ پریشر جیسی موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔
جب کہ اس کے بلمقابل اگر قرآن کو دیکھا جائے تو قرآن کی تلاوت یا فھم انسان کو معتدل اور نارمل کنڈیشن میں رکھنے کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے اور تخلیقی و فکری صلاحیتوں کو نکھارنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی انسانی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے۔