Alhikmah International

قیدیوں کے حقوق

:مقدمہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔اسلام نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں راہنمائی فراہم کی ہے۔عبادات ہوں یا معاملات،تجارت ہو یا سیاست،عدالت ہو یا قیادت ،اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اسلام کی یہی عالمگیریت اور روشن تعلیمات ہیں کہ جن کے سبب اسلام دنیا میں اس تیزی سے پھیلا کہ دنیا کی دوسرا کوئی بھی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔

اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت  میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔کیونکہ اسلام سراپا رحمت اور شفقت ہے، اس مذہب میں عدل واحسان کی بار ہا تاکید کی گئی ہے اور یہی اس مذہب کی روح ہے، ظلم وزیادتی، ناحق مارپیٹ، ستانا اور کسی کو خواہ مخواہ پریشان کرنا، اس مذہب میں جائز نہیں، اسلام کی نظر میں مرد وعورت امیر وغریب، محتاج اور غنی سب برابر ہیں، کسی کو کسی پر فو قیت حاصل نہیں؛ اس لیے کسی امیر کو غریب کے ساتھ ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی صاحبِ طاقت کو بے کس اور کمزوروں پر اپنی طاقت استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ بے زبان جانوروں پر شفقت اور رحمت کا حکم دیا گیا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مختلف ارشادات کے ذریعہ جانوروں پر ظلم وزیادتی سے منع فرمایا ہے، حضر ت جابر بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک گدھا گذر ا جس کے چہرے کو داغ دیا گیا تھا، اس کے  دونوں نتھنوں سے خون کا فوارہ چھوٹ رہاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا : اللہ اس شخص پر لعنت کرے جس نے یہ حرکت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی کہ نہ تو چہرے کو داغا جائے، نہ چہرے پر مارا جائے۔ [1]

اسلام نے جہاں  اعلی اخلاقیات کا حکم دیا ہے وہیں مجرموں اور قیدیوں کے حقوق بھی بیان کر دئیے ہیں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو سکے۔اسلام نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل زیر حراست قیدیوں کو اذیت رسانی سے منع کیا ہے۔لیکن محض اس  لیے کہ یہ قانون اسلامی قانون ہے ، اس کے ساتھ لفظِ اسلام جڑا ہوا ہے ، اربابِ حل وعقد ، اصحابِ اقتدار واختیار اس کو نظر انداز  کرتے رہے ، لیکن حق بات یہی ہے کہ اسلامی قوانین خواہ معاشرت ومعاملات کے متعلق ہوں یا نکاح وطلاق کی بابت، ان کا تعلق  جرم وسزا سے ہو، یا وراثت وجائیداد کی تقسیم سے، عین فطرتِ انسانی کے مطابق    مگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں زمامِ کار ہے ہمیشہ  ان قوانین کو اپنے ملکوں میں نافذ کرنے سے گریزاں رہے، کیوں کہ یہ قوانین یا تو ان کے اپنے مخصوص افکار ونظریاتِ باطلہ سے   متصادم ہیں، یا ان کو نافذ کرنے سے ان کے اپنے ذاتی مفادات ، اختیارات، عیش  و عشر وعشرت اوربے لگام آزادی وبے راہ روی پر زد  پڑتی ہے۔مگرمشہورمثل ہے:”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“ حق حق ہوتا ہے۔ اس پر جھوٹ اور غلط بیانی کی خواہ کتنی ہی دبیز   اورموٹی چادریں ڈال دی جائیں وہ ایک نہ ایک دن ظاہر ہوکر اپنے فطری وطبعی حسن کا اپنے دشمنوں کو بھی قائل کرواتا ہے ، اسی کا  مصداق ”قیدیوں کے حقوق سے متعلق اسلامی قانون“ ہے

قیدیوں کے مسائل اسلامی نقطہٴ نظر  کی روشنی میں 

آج دنیا میں انسانوں کے درمیان جو طبقاتی تقسیم اور ان کے درمیان حقوق کی ناہمواری پائی جاتی ہے اس کی ایک بدترین مثال انسانوں کا وہ طبقہ ہے جو اپنے بعض حالات کی بناء پر قیدخانہ کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گذارنے پر مجبور ہے، اس کے بالمقابل اسلام کے عادلانہ نظام میں انسانی تمام طبقات کے لئے مثالی توازن و ہم آہنگی اور ان کے حقوق و جذبات کی ہرممکن رعایت پائی جاتی ہے۔

اسلام نے اپنی تمام تعلیمات میں قیدیوں کے ساتھ عام انسانی احترام میں کوئی کمی نہیں کی، اسلامی نقطئہ نظر سے ہر انسان ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کو اپنے حقوق کے معاملے میں پوری آزادی ملنی چاہئے۔ البتہ انسان کبھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتا ہے، جو عام انسانی اجتماع کے لئے ضرر رساں ثابت ہوتی ہیں ایسے موقعہ پر عام انسانی مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ اس شخص کی سرگرمیوں کو محدود کیاجائے، یا اس پر مکمل بندش عائد کردی جائے، اسی کے لئے قید کی ضرورت پڑتی ہے، حضرت نبی کریم صلى الله عليه وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد میں کوئی باقاعدہ قید خانہ یا جیل کا نظام نہیں تھا، اور نہ کبھی باضابطہ حضور صلى الله عليه وسلم  نے کسی کے لئے قید کی سزا تجویز فرمائی۔ [2]

صرف تحقیق حال کے لئے بعض ملزمین کو وقتی طور پر قید کا حکم فرمایا، مثلاً:ایک مرتبہ قبیلہ بنوغفار کے دو شخص حضور صلى الله عليه وسلم کے حضور پیش کیے گئے، ان پر دو اونٹوں کی چوری کا الزام تھا، حضور صلى الله عليه وسلم نے ایک کو روک لیا اور دوسرے کو اونٹ تلاش کرنے کا حکم دیا، بالآخر وہ دوسرا شخص دونوں اونٹ لے کر دربار نبوت میں واپس ہوا اور پھر دونوں کی رہائی عمل میں آئی۔ [3]

قید کا نظام:

عہد فاروقی سے اس کا آغاز ہوا اور ضرورت کے تحت قید خانہ کا نظام رائج کیاگیا، حضرت عمر فاروق رضى الله تعالى عنه کے حکم پر مکہ کے گورنر نافع بن عبدالحارث نے اس غرض سے چار ہزار (۴۰۰۰) درہم میں صفوان بن امیہ کا مکان خریدا، اسی طرح حضرت علی نے کوفہ میں باقاعدہ قیدخانہ قائم کیا۔ [4]

نیز حضرت ابوموسیٰ اشعری رضى الله تعالى عنه نے کوفہ میں اور حضرت عبداللہ بن زبیررضى الله تعالى عنه نے مکہ مکرمہ میں اپنے اپنے عہد حکومت میں قیدخانہ قائم فرمایا۔ [5]پھر بعد کے ادوار میں تمام ہی مسلم حکمرانوں نے اس نظام کو باقی رکھا، اور اسلامی قاضیوں نے مختلف جرائم میں قید کی سزا تجویز فرمائی – لیکن یہ سب محض وقتی اور ناگزیر ضرورت کے تحت گوارا کیاگیا، اسی

(11)لئے قید کے کسی مرحلے پر بھی انسانی احترام کو نظر انداز نہیں کیاگیا۔

 اسلام نے قیدیوں کے ساتھ مراعات اور حسن سلوک کی تعلیم دی، اور ہرحال میں اس پہلو پر دھیان مرکوز رکھا کہ وہ بھی تمہاری طرح انسان ہیں، ان کے پاس بھی ضروریات اور تقاضے ہیں اور وہ بھی جذبہ واحساس رکھتے ہیں، اور کل وہ بھی تمہاری طرح آزاد تھے، حالات زمانہ نے ان کو اس حال تک پہنچادیا ہے، اس لئے ان کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کرو۔

(2)قیدیوں کے لئے اسلامی ہدایات:

غزوہ بدر میں فتح کے بعد جنگی قیدی حضور صلى الله عليه وسلم کے سامنے پیش کیے گئے تو زبان نبوت سے جو جملہ صادر ہوا وہ قیدیوں اور کمزور طبقہ کے لیے نبوت کا سب سے بڑا عطیہ ہےحضور صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَمْكَنَكُمْ مِنْهُمْ، وَإِنَّمَا هُمْ إِخْوَانُكُمْ بِالْأَمْسِ[6]

ترجمہ: اے لوگو! اللہ نے آج تم کو ان پر قدرت دی ہے اور کل یہ تمہارے بھائی تھے۔

قرآن کریم میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ابرار اور مقربین کی صفت قرار دیاگیا:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا [7]

ترجمہ: اور یہ لوگ پوری محبت و خلوص کے ساتھ مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔

حضور صلى الله عليه وسلم نے یہ ہدایت فرمائی:اسْتَوْصُوا بِالْأُسَارَى خَيْرًا [8]

ترجمہ: قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو۔

ان کی عزت نفس کا بھی پورا لحاظ فرمایا، اور ارشاد فرمایا:وَلاَ يَقُلْ أَحَدُكُمْ عَبْدِى أَمَتِى وَلْيَقُلْ فَتَاىَ فَتَاتِى [9]

ترجمہ: غلام اور باندی کہہ کر ان کو مت پکارو بلکہ اے میرے بیٹے اور ایے میری بیٹی کہہ کر آواز دو۔

انہی تعلیمات کا اثر تھا کہ عہد اوّل میں جن مسلمانوں کے پاس قیدی تھے وہ اوّل کھانا قیدیوں کو کھلاتے اور بعد میں خود کھاتے اوراگر کھانا نہ بچتا تو خود کھجور پر اکتفاء کرلیتے۔

حضرت مصعب بن عمیر کے حقیقی بھائی ابوعزیز بن عمر بھی ایک بار قید ہوکر آئے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے

جس گھر میں تھا ان کا یہ حال تھا کہ صبح و شام جو تھوڑی بہت روٹی بنتی وہ مجھ کوکھلادیتے اور خود کھجور کھاتے، میں شرماتا اور ہر چند اصرار کرتاکہ روٹی آپ لوگ کھائیں لیکن نہ مانتے اور یہ کہتے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہم کو قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا ہے۔ [10]

(دعویٰ) الزام عائد کرنے کا ضابطہ:

غرض اسلام ہر انسان کی شخصی آزادی اوراحترام کو بہت اہمیت دیتا ہے، اور کسی کو یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ کسی کی آزادی و عزت نفس کو نقصان پہنچائے، اسی لیے شریعت اسلامیہ اس کی اجازت نہیں دیتی کہ خواہ مخواہ کسی پر الزام لگاکر اس کی حیثیت کو مجروح کیا جائے، اور نہ اسلامی عدالت اس کی مجاز ہے کہ محض الزام کی بنا پر کسی کو مجرم قرار دے، الزام لگانے کے لیے ضابطہ مقرر کیاگیا کہ”الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِى وَالْيَمِينُ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ [11]

ترجمہ: دعوی پیش کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثبوت فراہم کرے بصورتِ دیگر منکر سے قسم لے کر اس کو بری قرار دیا جائے گا۔

بلکہ بعض صورتوں میں تو ثبوت فراہم نہ کرنے کی صورت میں خود مدعی کو مجرم قرار دیا جاتا ہے، اوراس کو بے بنیاد الزام لگانے کے جرم میں سزا دی جاتی ہے، مثلاً کوئی شخص کسی پر “زنا” کا الزام لگائے اوراس کو اصول کے مطابق ثابت نہ کرسکے، تو خود الزام لگانے والے پر حد قذف عائد کی جاتی ہے، اس سے تعزیرات کے باب میں اسلام کے تصورِ جرم کا پتہ چلتا ہے کہ ”جرم“ صرف وہ ہے جس کو ثابت کردیا جائے۔ اور جو ثابت نہ ہوسکے وہ صرف ”الزام“ ہے۔

ملزم کو قید کرنے کا مسئلہ:

محض الزام کی بناء پر کسی پر سزانافذ نہیں کی جاسکتی، البتہ کبھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے جس میں الزام کی تنقیح اور ثبوت کی فراہمی میں تھوڑا وقت لگ سکتا ہے، اس درمیانی مدت میں ملزم کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے؟ جبکہ وہ ابھی مجرم نہیں ہے، لیکن تنقیح دعویٰ تک کیا اس کو ”قید“ میں رکھا جاسکتا ہے؟ اس باب میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔

(۱) قاضی شریح، امام ابویوسف،اور امام الحرمین کی رائے میں مکمل ثبوت کے بغیر محض الزام کی بنا پر کسی کو قیدنہیں کیاجاسکتا، قاضی شریح نے ایک مالی معاملہ میں ماخوذ ملزم کو ثبوت نہ ملنے کی صورت میں محض قسم لے کر بری کردیاتھا۔ [12]

امام ابویوسف اس طرح کی صورت میں زیادہ سے زیادہ کسی معتبر ضمانت دار کا مطالبہ کرتے ہیں، ضمانت مل جانے کی صورت میں ملزم کو اپنے گھر جانے کی اجازت ہے۔ [13]

اس سلسلے میں ایک واقعہ حضرت عمر بن الخطاب کا نقل کیا جاتاہے کہ ان کے پاس ایک ملزم گرفتار کرکے لایاگیا،اور ثبوت فراہم نہ ہوسکا تو آپ نے اس کو چھوڑدیا۔ [14]

(۲) بعض فقہاء حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کی رائے یہ ہے کہ جن مقدمات میں ثبوت جرم کے بعد قید ہی کی سزا مقرر ہے، مثلاً مالی معاملات، ان میں مکمل ثبوت کی فراہمی کے بغیر ملزم کو قید میں رکھنا درست نہیں ہے۔

سحنون وغیرہ کی رائے یہ ہے کہ جن مقدمات کی سزا قید نہیں ہے مثلاً حدود و قصاص کے معاملات، ان میں عدالتی کارروائی مکمل

ہونے تک ملزم کو قید میں رکھا جاسکتا ہے۔ [15]

(۳) جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر ملزم کوئی معروف اور نیک شخص ہو، اور اس کی ذاتی زندگی غیرمشتبہ اور صاف ستھری سمجھی جاتی ہو، تو ایسے شخص کو بلاثبوت قید کرنا یا سزا دینا درست نہیں، البتہ مستورالحال شخص کو تحقیق حال تک قید کرنا درست ہے، یا ملزم کوئی مشتبہ شخص ہو اور اس طرح کے الزامات اس پر لگتے رہے ہوں تو اس کو بھی قید کرنا درست بلکہ نسبتاً بہتر ہے۔ [16]

قید کا ثبوت:

جمہور کی بنیاد درج ذیل آیات واحادیث ہیں:

* قرآن کریم میں ارشاد ہے:{تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ} [17]

ترجمہ: ان کو قید کرو نماز کے بعد، پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں۔

اس میں ادائے حق تک قید کرنے کا جواز ملتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیث جس کا ذکر اس سے قبل آچکا ہے کہ ”دربار نبوت میں قبیلہ بنوغفار کے دو شخص دو اونٹوں کی چوری کے الزام میں پکڑکر لائے گئے، آپ نے دونوں میں سے ایک کو اپنے پاس روک لیا، اور دوسرے کو اونٹ حاضر کرنے کا حکم دیا، بالآخر وہ شخص گیا اور دونوں اونٹ لے کر حاضر ہوا۔ [18]

نیز روایت ہے کہ واقعہ خیبر کے بعد ابن ابی الحقیق کو دربار نبوت میں پیش کیاگیا، اس پر ایک خزانہ کو چھپانے کا الزام تھا، جبکہ اس کا دعویٰ تھا کہ خزانہ خرچ ہوچکا ہے، مگر نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اس شبہ کی بنا پر اس کا دعویٰ رد کردیا کہ ابھی جنگ کو بہت دن نہیں ہوئے، اور مال بہت زیادہ تھا۔ (الْعَهْدُ قَرِيبٌ وَالْمَالُ أَكْثَرُ) اور آپ نے تحقیق حال تک اس کو قید رکھنے کا حکم دیا، اور حضرت زبیر بن عوام رضى الله تعالى عنه کو ملزم کے احتساب اور پوچھ گچھ پر مامور فرمایا، حضرت زبیررضى الله تعالى عنه کی تھوڑی سی تادیبی کارروائی کے بعد ہی اس نے خزانہ کی نشاندہی کردی۔ (فَدَفَعَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الزُّبَيْرِ فَمَسَّهُ بِعَذَابٍحتی ظهر الکنز) [19]

ان احادیث و آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہور فقہاء کا موقف اس سلسلے میں زیادہ مضبوط ہے۔ نیز یہ بات قرین قیاس بھی ہے، اس لیے کہ ملزم بعض حالات میں اپنے برے انجام سے بچنے کے لیے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے، اور اس طرح عدالتی کاروائی تعطل کا شکار ہوسکتی ہے، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ ملزم کے باہر رہنے کی صورت میں مدعی کی طرف سے اسے کسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑے، اس لیے ملزم اور مدعی دونوں کے لیے محفوظ صورت یہ ہے کہ ملزم کو حراست میں رکھا جائے، اور عدالتی کاروائی مکمل ہونے تک اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔

البتہ ملزم اگر معروف اور غیرمشتبہ شخص ہو، اس کے فرار ہونے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ اس کی ذاتی حفاظت کا کوئی خطرہ ہو، تو عدالت اس پر اعتماد کرسکتی ہے، اسی طرح اس کا لحاظ بھی ضروری ہے کہ مشتبہ ملزم جس کو عدالت کاروائی مکمل ہونے تک قید کرنے کا حکم دے گی وہ قید خانہ میں عام شہری کی طرح زندگی گذارے گا اور اس کو کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی اذیت نہیں دی جائے گی۔

[1]            (زادراہ، جلیل احمد ندوی،اسلامی پبلی کیشنیر، لاہور، صفحہ :۷۲)

[2]            (اقضیة رسول الله صلى الله عليه وسلم لابن فرج:9)

[3]            (مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۶-۲۱۷)

[4]            (المبسوط ۲۰/۸۹، الطرق الحکمية ۱۰۳)

[5]            (تفسیر خازن ۲/۷۱، زاد لمعاد ۲/۷۴)

[6]            مجمع الزوائد ومنبع الفوائد  (6/ 87)

[7]            (سورہ دهر:۸)

[8]            المعجم الصغير للطبراني (1/ 250)

[9]            السنن الكبرى للبيهقي. ط المعارف بالهند (8/ 13)

[10]         (مجمع الزوائد ۶/۸۶)

[11]         السنن الكبرى للبيهقي. ط المعارف بالهند (8/ 279)

[12]         تبصرة الحكام في أصول الأقضية ومناهج الأحكام (1/ 120)

[13]         (کتاب الخراج ۱۹۰،۱۹۱)

[14]         (المحلی لابن حزم ۱۱/۱۳۱، مصنف عبدالرزاق ۱۰/۲۱۷)

[15]         (المغنی لابن قدامة ۹/۳۲۸)

[16]         (الاحکام السلطانية للماوردی ۲۱۹)

[17]         [المائدة: 106]

[18]         مصنف عبد الرزاق (10/ 216)

[19]      السنن الكبرى للبيهقي (9/ 232)</p id=”bottom-25″ >

ijfdkhjkdhfkhskh    (25)

Table of Contents

Recent