Alhikmah International

نکاح و طلاق فتاوی جات

سوال نا مہ از فتوی با بت طلا ق رجعی :

میں ابو  بکرولد محمد اکرم سا کن نشتر کا لو نی مکا ن نمبر 252عمار  بلا ک ، لا ہو ر نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ وہ میری بہن سے جھگڑا کر رہی ہے ، اسی دوران میں نے اُسے منع کیا ، لیکن وہ الٹا غصے سے میرے سا تھ لڑا ئی کر نے لگی ،پھر مجھے بھی غصہ آگیا ، چنا نچہ میں نے دو با ر کہا کہ میں تمہیں طلا ق  دے دو ں گا ، پھر میں نے ایک با ر یہ کہہ دیا کہ میں تمہیں طلا ق دیتا ہو ں ، بعد ازاں میں نے  اپنے کزن کو فون کر کیا بتا یا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلا ق دیدی ہے ۔

از را ہ کر م علما ء دین و مفتیا ن شرع متین میری رہنما ئی فر ما دیں کہ اب میں صلح  اور رجو ع کر نا چا ہتا ہو ں ، شریعت کے مطا بق میرے لیے کیا حکم ہے ؟ آپ کا بہت شکر یہ ہو گا  ۔

سا ئل :ابو بکر صدیق ولد محمد اکر م ۔نشتر کا لو نی ،فیرو ز پو ر رو ڈ ، لا ہو ر ۔

فون :  03004961826۔ کا رڈ :3510294846185

مؤرخہ : ……………………………..

فتوی برائے طلا قِ رجعی

شرعی محمدی کے مطابق بلا شبہ طلا ق دینےکا حق مر د کو حاصل ہے ، کیونکہ رہنے سہنے ، کھا نے پینے ، خرچ کر نے اور گھر سے با ہر تمام تر ذمہ داری اللہ تعا لیٰ نے مردوں پر عا ئد کر تے ہو ئے فر مایا:

((الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ))

“مر دوں کو عورتوں پر نگران بنایا گیا ہے ، اس لیے کہ اللہ تعا لیٰ نے لو گو ں کو ایکدوسرے پر فضیلت عطا ء کی ہے ، اور

 مرداپنے مال  میں سے  خرچ بھی کر تے ہیں ۔

    طلا ق رجعی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فر ما ن ہے :

((الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَان))

“طلاق (رجعی ) دو مر تبہ ہے ، پھر یا تو اچھے طر یقے سے روکنا ہےیا نیکی کرتے ہو ئے چھو ڑ دینا ہے ۔”

طلا ق ِ رجعی کی مقررہ  عدت میں شوہر کو رجو ع کر نے کا زیا دہ حق حاصل ہو تا ہے ، جس کے با رے اللہ تعالیٰ کا فر ما ن ہے :         ((وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا))

” اور بیو یو ں کے شوہر رجو ع کر نے کا زیا دہ حق رکھتے ہیں ، اگر اُن کا ارادہ صلح کر نے کا ہے ۔”  (البقرۃ :228)

شرعِ محمدی میں مرد یعنی شوہر کو تین طلا قوں کا حق دیا گیا ہے ،جس میں پہلی اور دوسری طلا ق رجعی ہو گی ،اور تیسری طلا ق کے بعد رجو ع کا کو ئی حق با قی نہیں رہتا ۔

مزید براں اللہ تعالی کا فر مان ہے : ((فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ))

” اُن دونو ں (میاں وبیوی) پر کو ئی گنا ہ نہیں اگر وہ با ہمی طو ر پر رجو ع کر نا چا ہیں،اس شرط کے ساتھ کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم رکھیں گے ۔”

طلا ق دیتے ہو ئے اس با ت کا خیال رکھنا  بہت ضروری ہے کہ طلا ق مخصوص ایا م ِ ماہواری /حمل کے دوران اور ایسی طہا رت میں کہ جس میں شوہر بیوی کے پاس گیا ہو ، اِن تین حالتوں میں طلا ق دینا درست نہیں ہے ، بلکہ سنگین ترین گناہ ہے ، کیو نکہ سنت کے مطا بق نہیں بلکہ خلاف ِسُنت طلا ق ہے ۔

 

 

صورت مسئو لہ میں شفیق احمد ولد غلام جعفر قمر  نے اپنی بیوی مسما ۃ آسیہ فضل دختر فضل حسین کو پہلے گھریلو نا چاقی کی بنا پر ایک طلا ق دی ، پھر عدت کے اند ر ہی  رجو ع کر لیا اور اب کی با ر مؤرخہ 2018/11/17 کو  دوسری طلاق دی اوردوبا رہ  کچھ دنو ں بعد عدت کے اندر ہی رجو ع کر لیا ہے ،جس کے بعد شرع محمد ی ﷺمیں  ایک طلا ق کی گنجا ئش با قی رہ گئی ہے۔

جس میں کسی طرح کا غیر اخلا قی دبا ؤ ، غیر ضروری گفت و شنید اور دنیوی رکا وٹ کے بغیر میا ں و بیوی دو نو ں ازدواجی رشتہ میں بحسن و خوبی زندگی بسر کر نے کے مجا ز اور حقدار ہیں ۔اس کے سا تھ مزید اللہ کا ڈر ، شریعت محمدی ﷺکی پا بندی کر تے ہو ئے اور اپنی اور  اہل خانہ کی اصلا ح کر تے ہو ئے پختہ عزم کر یں کہ طلا ق  جیسے مکر وہ و نا پسندیدہ عمل کا ارتکا ب کر نے کی دوبا رہ نو بت نہیں آنے دیں گے ۔

آسیہ فضل ولد فضل حسین کا بدست بیا ن حلفی لف کر دیاہے ، جو تجدید عہد و وفا بھی ہے ، لہذامذکو رہ  زوجہ کسی طر ح آئند ہ جہد و سعی کر ے کہ اپنے خاوند مسمی ٰ شفیق احمد ولدغلام  جعفر قمر کی نا فر ما نی ، عصیا ن اور خانہ داری میں مخالفت نہ کر ے ، جو تفریق زوجین کا با عث بنے ۔  و للہ المؤفق

 

توقیع رئیس دار الافتاء:………………………………………………………………

 

توقیع المفتی  العام : ………………………………………………………………….

 

رجو ع بر ائے طلا ق ثانی نا م گواہا ن مع لف شنا ختی کا پی:

 

1: عبد الرحمٰن ولد محمد ابر اہیم : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

2: اظہر رفیق ولدمحمد رفیق  :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[doc id=12983]