خاندان انسانی معاشرت کا پہلا اور بنیادی ادارہ ہے۔ اس لئے اسلام کے معاشرتی نظام میں خاندان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ خاندان کی بنیاد ایک مرد اور عورت کی باہمی رفاقت سے وجود میں آتی ہے۔ ان دونوں سے مل کر بننے والا چھوٹا سا اجتماعی دائرہ انسانی تہذیب کی سب سے پہلی کڑی ہے۔ دین اسلام میں مرد اور عورت کی یہ مستقل رفاقت ایک کھلے مستحکم معاہدے (نکاح) کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔یہ نکاح ایک ایسا با حرمت رشتہ ہے جو دونوں کی مرضی اور پورے اعلان کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا تعلق بدترین گناہ اور ایک ایسا جرم ہے جس کی سخت سزا مقرر ہے۔ نکاح کے ذریعے دونوں (مرد عورت) اپنے اوپر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے ان کے پابند ہو جاتے ہیں۔ اس رشتے کی وجہ سے ایک چھوٹی سی وحدت بنتی ہے۔ مرد اس کا نگران اور ناظم اعلی ہوتا ہے۔
القرآن –
(اٙلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ) سورة النساء: 34
مرد عورتوں پر نگران ہیں۔
اس حیثیت سے وہ اپنے اہل و عیال کی دنیاوی ضرورتوں اور اخروی فلاح دونوں کا خیال رکھنے والا اور اللہ کے ہاں اس کا جوابدہ ہے۔ بیوی اس کے ماتحت گھر کا اندرونی نظم و نسق چلاتی ہے۔ بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھر کے نظم و نسق چلانے کے ساتھ شوہر کی حقیقی رفاقت اور اپنی عفت کو پوری طرح محفوظ رکھے۔
عورت اور مرد کے اس ملاپ سے ایک نئی نسل وجود میں آتی ہے۔ اس سے رشتے، کنبے اور برادری کے دوسرے تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔ بالآخر یہی رشتہ پھیلتے پھیلتے ایک معاشرے تک جا پہنچتے ہیں۔
خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس میں ایک نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو انسانی تہذیب کی وسیع خدمات سنبھالنے کے لیے محبت، ایثار، دل سوزی اور خیر خواہی کے ساتھ تیار کرتی ہے۔ گویا کہ یہ ادرہ ایک ایسی تربیت گاہ جہاں سے اسلام اچھے انسان تیار کرنا چاہتا ہے، اخلاق حسنہ کی ابتدائی تربیت اسی مقام پر دیتا ہے۔ تاکہ شروع سے ہی بچے میں اسلام کا احترام پیدا ہو اور اس کی سیرت اسلامی سانچے میں ڈھل جائے۔